الیکشن 90 روز کی آئینی مدت میں نہ سہی 5ماہ کی مدت میں منعقد کروانے کا اشارہ تو مل گیا ہے مگر انتخابی مہینے ( جنوری ) کا اعلان ہو جانا اور تاریخ کا اعلان نہ ہونا علامت ہے کہ اندرونِ خانہ یا تو نہایت احتیاط سے اسٹرٹیجی بن رہی ہے یا پھر حکمتِ عملی سیاسی اسٹاک ایکسچینج کے اتار چڑھاؤ کی روشنی میں روزانہ کی بنیاد پر مرتب ہو رہی ہے۔
یہ تاثر سال بھر سے جاری قلابازیوں سے مزید پختہ ہو رہا ہے اور یہ سوال بھی بار بار اٹھ رہا ہے کہ واقعی الیکشن کمیشن اپنے فیصلوں میں اتنا ہی خود مختار ہے جتنا کہ کاغذ پر دکھایا گیا ہے؟
گزشتہ برس دعویٰ کیا گیا کہ 4 ماہ کے پیشگی نوٹس پر انتخابی مشینری حرکت میں آ سکتی ہے۔ جنوری میں پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد پہلے تو کمیشن نے مارچ میں صوبائی الیکشن کرانے کا عندیہ دیا اور پھر بتایا گیا کہ نہیں! نہیں!! ایسا لاجسٹکس کی بنیاد پر ممکن نہیں حتیٰ کہ سپریم کورٹ کی طے کردہ 14 مئی کی لکیر بھی اطمینان سے عبور کر لی گئی اور معزز عدالت نے اس پر اتنا ردِ عمل بھی ظاہر نہیں کیا جتنا کہ ایک عام سی انفرادی توہینِ عدالت پر دیکھا جاتا رہا ہے۔
ایک انتہا یہ تھی کہ یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے عدالتی حکم نامے کی عدولی پر وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے اور دوسری انتہا یہ ہے کہ الیکشن کروانے کی 60 یا 90 دن کی آئینی مدت کی لازمی شرط پامال ہونے پر بھی عدالتِ عظمی کے سابق سربراہ نے کسی پر باضابطہ فردِ جرم عائد کرنا چھوڑ، بازپرس تک نہیں کی۔
جب ایک بار آئینی حد پامال ہو جاتی ہے تو پھر دیگر آئینی قدغنیں پامال ہونا بھی کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہوتا۔ عدالتی فیصلوں اور رہائی و ضمانت کے پروانوں کو بھی کاغذ بنا کے ہوا میں اڑانا نارمل بن گیا ہے جیسا کہ 9 مئی کے بعد دیکھنے میں آ رہا ہے۔
صدارتی عہدہ اس وقت ایک ڈیکوریشن پیس ہے۔ وزیراعظم دستخطی مشین ہیں۔ بیک روم اسٹیبلشمنٹ نے آئین کو طوائف الملوک گھر کے اس بوڑھے میں تبدیل کر دیا ہے جس کی عزت تو بظاہر سب کرتے ہیں مگر بات کوئی نہیں سنتا۔ حالانکہ آئین کونے میں پڑا کھانس کھانس کے اپنی موجودی کا مسلسل احساس بھی دلا رہا ہے۔
اکانومسٹ انٹیلی جینس یونٹ کی سالِ گزشتہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کی محض 8 فیصد آبادی حقیقی جمہوریت سے بار آور ہے۔ ایک تہائی آبادی آمریت کے سائے تلے ہے۔ 37 فیصد آبادی ناقص جمہوریت میں جی رہی ہے جبکہ 18 فیصد آبادی ہائبرڈ ( چوں چوں کا مربہ ) جمہوریت کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔
اگرچہ بنا تاریخ کا اعلان کیے جنوری میں انتخابات کرانے کا وعدہ بھی خوش آئند ہے مگر اس پر زیادہ خوش ہونا اس لیے نہیں بنتا کہ ہماری تاریخ ایسی کئی مثالوں کا لاشہ اٹھائے پھر رہی ہے کہ انتخابات کا عمل پولنگ سے چند روز پہلے بھی منسوخ ہوتا رہا ہے۔ سامنے کی مثال اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری ہے جہاں پولنگ سے محض 3 دن پہلے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بودے دلائل کے سائے میں آگے بڑھا دیا گیا۔
اور یہ تو میری عمر کے سب لوگ جانتے ہیں کہ 46 برس پہلے ایک آمر نے سینے پر ہاتھ رکھ کے 90 دن میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ جب انٹیلی جینس اداروں نے رپورٹ دی کہ بھٹو کی پارٹی دوبارہ اکثریت حاصل کر لے گی تو 16 اکتوبر 1977 کے مجوزہ انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے انہیں غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔اور’ پہلے احتساب اور پھر انتخاب‘ کا ڈرامہ شروع ہوا جو آج تک روپ بدل بدل کے جاری ہے ۔
چلیے انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں بخیر و خوبی ہو بھی جاتے ہیں تو اس سے کتنا فرق پڑے گا۔ 2018 میں بھی انتخابات ہوئے تھے۔ تب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں کی ایک ٹانگ زانو سے اور ایک ہاتھ کمر کے پیچھے باندھ کے کہا گیا کہ اب دوڑو۔ اس بار یہی کام پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے جبکہ نیب آرڈیننس میں سابقہ حکومت کی من مانی ترامیم کی عدالتی تنسیخ کا سب سے زیادہ فائدہ انہی بادشاہ گروں کو پہنچا ہے جو ہمیشہ کی طرح ہر جماعت اور سیاستداں کو ایک مخصوص دائرے میں رکھ کے گیم کھلانا چاہتے ہیں۔
ہماری جمہوریت پچھلے 50 برس میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی، اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ قائدِ حزب اختلاف کی جس نشست پر ولی خان اور بے نظیر بھٹو براجمان ہوا کرتے تھے، اسی نشست پر راجہ ریاض احمد آف فیصل آباد 16 ماہ جھولتے رہے ۔
جب کھیل کے غیر اعلانیہ قواعد کوئی اور طے کرے تو آپ جتنے الیکشن کروا لیں نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی نکلے گا۔ کیا ایران، چین، مصر، الجزائر، وسطی ایشیائی ریاستوں، روس اور افریقی ممالک میں الیکشن نہیں ہوتے؟ ہم سے زیادہ ہوتے ہیں اور ہم سے زیادہ شفاف ہوتے ہیں۔ مگر پارلیمنٹ کو تھوپے گئے نظام میں سے ایک اینٹ بھی ادھر سے ادھر کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔
جب نظام کی آنکھوں پر چربی چڑھی ہو تو انتخابی مشق کے نتیجے میں گورننس کی آنکھوں میں موتیا ہی اترتا ہے۔
الیکشن تواتر سے ہونا ایک صحت مند عمل ہے لیکن اگلے مرحلے میں اگر اختیارات کی بامعنی منتقلی نہ ہو سکے اور صرف بے اختیاری ہی ہر 3، 4 یا 5 برس بعد ایک سے دوسری پارلیمنٹ کو منتقل ہوتی چلی جائے تو ایسے عمل کو انتقالِ اقتدار نہیں بلکہ اقتدار کا انتقال کہتے ہیں۔