نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا ہے کہ نگراں حکومت بہت کم عرصے کے لیے آئی ہے اور اس کے پاس کوئی بڑے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے، نہ ہی اس دوران کوئی بڑے معاشی اصلاحات متعارف کروائی جا سکتی ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو ملکی معاشی صورتحال پر بریفننگ دیتے ہوئے نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ کوئی بڑی معاشی تباہی نہ ہو، ہماری حکومت کا مشن ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام جاری رہے اور 700 ملین ڈالر کی قسط پاکستان کو مل جائے۔
انہوں نے کہا، ’میں نے ماضی میں بہت سے آئی ایم ایف پروگرام تیار کیے ہیں، میں اس حوالے سے واضح کرنا چاہتی ہوں کہ آئی ایم ایف پروگرام بہت مشکل ہوتے ہیں، ہمیں آئی ایم ایف پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے جوڈیشل سسٹم کی بھی مدد چاہیے‘۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ مہنگائی کی بنیادی وجہ اسٹرکچرل مسائل ہیں، حکومت ایف بی آر کو جدید تقاضوں سے آراستہ کرنے کے لیے کوشاں ہے، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے پر کام جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نگراں حکومت نے معیشت کی بحالی کا پلان بنا لیا ہے اور جلد نگراں وزیر اعظم اس پلان کی منظوری دیں گے، ہم آئی ایم ایف کے ساتھ رابطے میں ہیں اور جلد نیا جائزہ شروع ہو جائے گا، امید ہے کہ پاکستان کو 700 ملین ڈالر کی نئی قسط مل جائے گی۔
نگراں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وہ کوئی سیاست دان نہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی بیان دینا چاہتی ہیں، ماضی میں بھی ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، اس وقت پاکستان دیگر ممالک کی طرح شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے، تاہم روپے کی قدر میں 6 فیصد تک اضافہ خوش آئند ہے، اس سے معیشت کو استحکام ملے گا، گزشتہ مالی سال کے نسبت رواں مالی سال کے اعداد و شمار بہت بہتر ہیں۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے ایکسچینج ریٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایکسچینج ریٹ پر بات نہیں کر سکتیں کیونکہ یہ سینٹرل بینک کا کام ہے، گزشتہ مالی سال میں خراب معاشی صورتحال کا سامنا رہا اور ملک میں تاریخی مہنگائی دیکھنے میں آئیی، تاہم اب مہنگائی کا گراف نیچے آ رہا ہے، سالانہ بنیادوں پر جی ڈی پی گروتھ میں بھی بڑی کمی آئی، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں بھی 10 فیصد کمی آئی ہے۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی سے 40 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے آئے ہیں جبکہ بے روزگاری کی شرح 6 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد ہو گئی ہے، معاشی بحران کا صرف پاکستان شکار نہیں رہا ہے، دیگر ترقی پزیر ممالک بھی اس بحران کا شکار رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام رہی ہے، نگراں حکومت نے معیشت کی بحالی کے لیے زرعی شعبے کی ترقی کے لیے اقدامات کیے ہیں اور درآمدات سے بھی پابندی اٹھائی لی گئی ہے۔
شمشاد اختر نے کہا کہ نگراں حکومت اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ایکشن لے رہی ہے، بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کے نظام کو بہتر بنایا گیا ہے، ایکسچینج ریٹ مارکیٹ میں بے یقینی کی صورتحال کو ختم کیا گیا ہے جس سے ڈالر کی قدر 288 روپے تک نیچے آئی ہے، اوپن مارکیٹ اور انٹر بنک میں فرق کو ایک فیصد تک محدود کیا گیا ہے، ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اجلاس کے دوران سینٹر سعدیہ عباسی نے تجویز دی کہ بجلی صارفین اپنے بلوں میں ود ہولڈنگ اور دیگر ٹیکس دے رہے ہیں، ٹیکسز دینے کے بعد اب اُن صارفین کو این ٹی این جاری کیا جائے، اس موقع پر حکام ایف بی آر نے کہا کہ ہمارے پاس 40 لاکھ کمرشل اور صنعتی صارفین ہیں، تاہم جس کے نام پر میٹر ہے وہ ٹیکس نہیں دے رہا، پاور ڈویژن کو کہا ہے کہ کہ میٹروں کی ملکیت تبدیل کی جائے، بعد ازاں کمیٹی نے سعدیہ عباسی کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے مناسب اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔