ولی خان اور ان کے ورکر میزبان تھے اور پشاور میں اپوزیشن جماعتوں کے انتخابی اتحاد کا جلسہ تھا، ان جماعتوں کی مشترکہ صدارتی اُمیدوار فاطمہ جناح تھیں جوں ہی فاطمہ جناح اسٹیج پر آئیں تو تمام کرسیوں پر مرکزی لیڈرز براجمان تھے ۔ ولی خان بھی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے جوں ہی فاطمہ جناح پر نظر پڑی تو بھاگ کر گئے فاطمہ جناح کے سر پر بھائیوں کی طرح دست شفقت رکھا اور ہاتھ پکڑ کر اپنی کرسی پر بٹھا کر خود ایک عام کارکن کی طرح کرسی کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور دیر تک کھڑے رہے کیونکہ اسٹیج پر دوسری کرسی موجود نہیں تھی.
ولی خان، خان عبدالغفار خان کے بیٹے تھے جبکہ فاطمہ جناح قائداعظم محمد علی جناح کی بہن۔
دونوں خاندانوں کے درمیان سیاسی اختلاف غضب کا تھا لیکن ذاتی احترام ایسا کہ ایک زمانے کو ششدر کر دیا تھا۔
مسلم لیگ کے قیوم خان اور نیشنل عوامی پارٹی کے خان عبدالولی خان کے درمیان سیاسی تناؤ ہمیشہ انتہا کو چھوتا ہوا محسوس ہوا، حتٰی کہ بابڑہ جیسے خونچکاں واقعات بھی اسی تاریخ کا حصہ بنے لیکن یہی قیوم خان جب 70 کے عشرے میں بھٹو حکومت میں وفاقی وزیر داخلہ اور مخلوط حکومت کا حصہ تھے تب ولی خان اور ان کےساتھی حیدرآباد ٹریبیونل میں پابند سلاسل تھے ،قیوم خان کے سخت سیاسی مخالف ولی خان کی اہلیہ بیگم نسیم ولی خان پارٹی کو متحرک کرنے گھر سے نکل آئی تھیں اور تحریک چلا رہی تھیں اس تحریک کو عوامی نیشنل پارٹی کے سخت جان ورکر عروج پر لے گئے اور بھٹو حکومت کو بہت حد تک پریشان کیا۔
اس حوالے سے وزیر اعظم بھٹو نے پرائم منسٹر ہاؤس میں میٹنگ بلوائی تھی اسی میٹنگ میں بھٹو نے بیگم نسیم ولی کے بارے میں کچھ نازیبا الفاظ کہے سامنے بیھٹے ہوئے وزیر داخلہ قیوم خان کا چہرہ سُرخ ہوگیا اور اپنی کرسی سے اُٹھ کر بھٹو جیسے آدمی سے کہا کہ زبان سنھبال کر بات کریں مجھے اختلاف ولی خان سے ہے بیگم نسیم میری بہن جیسی ہے تلخی اتنی بڑھی کہ بات طعنوں اور گالیوں تک پہنچی اور قیوم خان میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے ( اس واقعے کے چشم دید گواہ قیوم خان کے سیکیورٹی افسر ذاکر خان زندہ ہیں اور پشاور میں مقیم ہیں۔)
بعد میں قیوم خان نے اس ’گستاخی‘ کی کیا قیمت ادا کی وہ ایک الگ کہانی ہے۔
اکبر بگٹی بلوچ قوم پرستی کے سر خیل تھے جبکہ چودھری ظہور الہی مسلم لیگ سے وابستہ کٹر پاکستانیت کے علمبردار لیکن نظریاتی اختلافات کے باوجود دونوں میں ذاتی دوستی اور احترام کا ایسا رشتہ کہ باید و شاید۔ مچھ جیل سے عدالتی پیشی کے لیے کو ئٹہ لاتے ہوئے اکبر بگٹی نے اپنے دوست ظہور الٰہی کو ایک قاتلانہ حملے سے بچایا بھی اور دوست کی خاطر دشمنی بھی مول لی تھی۔
افغان جنگ کے دوران اے این پی اور جماعت اسلامی نظریاتی محاذ پر شدت کے ساتھ ایک دوسرے کے مد مقابل تھے لیکن انہی دنوں جماعت کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم تنظیمی دورے پر چارسدہ گئے توولی خان کو پیغام بھیجا کہ دوپہر کا کھانا آپ کے ہاں کھاؤں گا۔
کھانے کے بعد دونوں گپیں ہانکتے اور قہقہے لگاتے دکھائی دیے۔
نوابزادہ نصراللہ اور خواجہ خیر الدین جبکہ پیر پگاڑا اور شاہ احمد نورانی کی پارٹیاں اور سیاسی نظریات الگ الگ تھے لیکن باہمی دوستی اور احترام کا جذبہ ایک جیسا۔
اسی طرح نوازشریف اوربے نظیر بھٹو ایک دوسرے کے سیاسی حریف تھے لیکن بے نظیر بھٹو پنڈی کی سڑکوں پر ایک شامِ الم میں ماری گئیں تو تھوڑی دیر بعد نواز شریف ان کے سرہانے کھڑے جیالوں کو گلے لگاتے اور آنسو بہاتے دکھائی دیے۔
یہ تھا ہمارا قابل فخر اور شاندار روایتوں سے مزین وہ سیا سی خیمہ جس میں اچانک عمران خان گھس آیا اور پھر کہاں کا ذاتی تعلق و دوستی اور کونسی تہذیب و شائستگی۔
پھر تو بات اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا اورچور ڈاکو لٹیرا سے ہوتی ہوئی گیلی شلواروں تک جا پہنچی صرف اسی پر ہی بس ہوتا تو ہم قلمی مو شگا فیوں کی ہنر مندی سے کام لیتے ہوئے حرف و لفظ کے معنی و مفہوم سے نا شناسی، سادہ بیانی، زبان کی پھسلن حتٰی کہ بلند فشار خون کے بہانے ٹانک کر اس ادھڑی اور بوسیدہ و بد رنگ سیاسی پوشاک کو بھی اطلس و کمخواب بنا دیتے لیکن خان صاحب اپنی نظریے و بیانیے سمیت اس حد تک جا پہنچے کہ مشرقی تہذیب و تمدن ایک کرا ہت بھری اجنبیت کے ساتھ دیکھتا رہ گیا۔
کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سینکڑوں سالوں سے رواداری ہمدردی اور شائستگی سے معمور تہذیب کو خان صاحب نے نہ صرف بے دردی سے مار ڈالا بلکہ اب اس کی لاش کو گلیوں کے جوہڑ میں کھنچتے ہوئے ان سیٹیوں اور تالیوں کا لطف اٹھا رہا ہے جو سفاکی اور بیگانگی کے ایک غول سے بر آمد ہو رہے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی موت پر ان کے خاندان والوں سے عمران خان کی تعزیت تو درکنار ہمدردی کے دو بول تک نہیں کہے گئے حالانکہ بے نظیربھٹو کے شدید سیاسی مخالفین سمیت تمام جماعتوں کے رہنما اپنے اپنے آنسو ان کی دہلیز پر چھوڑ آئے تھے۔
پشاورکا بلور حاندان مظلومیت اور ہمدردی کا ایک سوگوار استعارہ ہے مدتوں اس خاندان کے مردوں کے پرخچے اُڑتے خواتین بیوہ ہوتیں اور بچے یتیم ہوتے گئے کون سنگدل ہو گا جس کی آنکھوں میں نمی نہ اُتری ہو یاجس نے موقع ملتے ہی اس خاندان کے ویران آنگن میں حاضری نہ دی ہو لیکن عمران خان ایسے ویران آنگنوں میں آنسوؤ ں کی سوغات بانٹنے والےآدمی ہی نہیں اور وہ بھی ان کے ہاں جو اس کی جماعت کا حصہ نہیں اور تو اور اپنےسگے چچا زاد بھائی نجیب اللہ نیازی ( جوپنجاب اسمبلی کے ممبر تھے) کی موت پر حاضری تودرکنار تعزیتی بیان تک سے گریز کیا کیونکہ مرحوم اور اس کا بڑا بھائی حفیظ اللہ نیازی سیاسی مخالف تھے۔
اورپھر اس حوالے سے کلثوم نوازکا معاملہ تو رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔
اُف خدایا!
تمہاری زمین پر ایسی سفاک درندگی بھی پل رہی ہے؟
ایک بےضرر بلکہ غیر سیاسی خاتون اپنے خاندان پر اتری آزمائش و ابتلاء کے قہر آلود موسموں میں اور غریب الوطنی میں کینسر سے ایڑیاں رگڑرگڑ کرمر رہی تھیں لیکن دوسری طرف سرِ شام ٹیلی وژن چینلوں پر زہریلے قہقہوں کے ساتھ عمران خان کے پیروکار پھیل جاتے اور موت سے برسر پیکار آخری سانسیں لیتی مریضہ کو ڈرامہ باز کہہ کر اس کا مذاق اُڑاتے رہتے۔
بس بھی کروں خُدا کی قسم مزید لکھا نہیں جاتا۔