”خوش قسمت“ عمران ریاض

ہفتہ 30 ستمبر 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

صبر کریں، شور مچائیں، احتجاج کریں، جلسے جلوس نکالیں یاخاموشی سے کسی معجزےکا انتظار کریں۔ لاپتا افراد کے بے بس، پریشان حال اور ہر وقت دروازے کی طرف تکتے اہل خانہ یہی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ سراپا سوال ہوتے ہیں کہ آخر وہ ایسا کیا کریں کہ ان کے پیارے واپس آ جائیں۔ لاپتا افراد کے خاندان عرصہ بیت جائے، ان کی واپسی کے منتظر رہتےہیں۔ انتظار کی شدت انہیں موت کے قریب سے قریب تر لے کر جا رہی ہوتی ہے۔ کچھ افراد ساری زندگی لاپتا ہی رہتے ہیں۔ چند ایک کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں اور کچھ خوش قسمت گھروں کو بھی لوٹ آتے ہیں۔ مگر کم بہت ہی کم!

ایسے ہی ایک خوش قسمت صحافی عمران ریاض خان بھی تھے جو 4 ماہ سے لاپتا تھے اور ابھی چند دن قبل ہی اپنے گھر پہنچے ہیں۔ ان کی جسمانی اور ذہنی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ وہ ٹھیک طرح سے بول سکتے ہیں نا ہی پہلے کی طرح ان کی قوتِ گویائی ہے۔ ان کا وزن خطرناک حد تک کم ہوچکا ہے۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہے ہیں۔ ملاقات کرنے والے بتاتے ہیں کہ یہ وہ عمران ریاض نہیں جن کا وجود ہم نے دیکھا تھا۔ اس 4ماہ میں عمران ریاض کو یہ تک پتا نہیں چلا کہ دن ہے یا رات ہے وہ دنیا سے اتنے بے خبر تھے۔

عمران ریاض خان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اتنے مہینوں بعد ہی سہی، اپنے گھر پہنچ گئے۔ اپنے اہل خانہ کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرلیں۔ اور اہل خانہ نے انہیں دیکھ کر سجدہ شکر ادا کیا۔ کچھ لاپتہ افراد ایسے بھی ہیں جو چٹکی بجاتے ہی غائب تو ہو گئے لیکن آج تک تلاش نہ کیے جاسکے۔ ان کی مدد کے لیے نہ کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج کام آئی، نہ کسی کوان کی دہائی سنائی دی اور نہ عدالتوں کومظلوموں کی دستک سنائی دی۔ حکمران تو ویسے ہی خاموش تماشائی ہیں جن کو اقتدار کے علاوہ نہ کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی۔ لیکن آواز اُٹھانے والے بھی خوفزدہ رہتے ہیں کہ خود نہ اُٹھالیے جائیں!

جبری گمشدگیوں کا سہرا کس کے سر سجتا ہے، یہ سوال شاید کرنے کی ضرورت نہیں۔ مگر حکومتوں سے یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ آپ نے لاپتا افراد کے لیے کیا کیا؟ کون سی قانون سازی کی؟ سسٹم کو بہتری کے لیے کیا کوشش کی؟ وہ یہ بتانے کی جسارت نہیں کرتے کہ ان بندوں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ جب حکمران بے بس ہوں، عدالتیں مجبور تو عام عوام کس کے در پر جائےاور کس سے انساف مانگے؟

لاپتا کرنے والے جادوگر یہ تک نہیں بتاتے کہ بولنے کی جسارت کرنے والے گمشدہ افراد زندہ بھی ہیں یاسزا کے طور پر ان کی ہمیشہ کے لیے زبان بند کردی گئی ہے؟ گمشدہ اہلخانہ کے افراد تواس بات پر ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ اگر ان کے پیارے زندہ نہیں توان کی لاشیں ہی دیکھنے کو مل جائیں کیونکہ ان پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے مٹی کے سپرد کردیں تو قرار آ ہی جاتا ہے۔ لیکن جوں جوں وقت گرزرتا ہے توں توں خاندان کی تڑپ میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیونکہ نا وہ زندہ لوٹتے ہیں اور نہ ہی ان کی موت کی خبر آتی ہے۔ اپنے ہاتھوں سے مٹی کے سپرد کردینا بھی ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا کہ جا کر کم ازکم ان کی قبر کی زیارت ہی کرلی جاتی ہے۔

یہ سلسلہ سنہ 2000 کے بعد سے شروع ہوا اور نجانے یہ سلسلہ نہ جانے کب تھمے گا، لاپتہ افراد کمیشن کی سالانہ رپورٹ 2022 کے مطابق اب تک لاپتہ افراد کے کل 9 ہزار 133 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان کیسز میں کمی ہونے کی بجائے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کبھی سیاسی نظریات کی وجہ سے دھمکی آمیز پیغامات آتے ہیں تو کبھی لاپتا فراد کےخلاف آواز اٹھانے والے ہی لاپتا ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کی بازیابی کے لیے کبھی بھوک ہڑتالی کیمپ لگتے ہیں تو کبھی مظاہرے ہوتے رہتےہیں لیکن کوئی شنید نہیں ہوتی۔ سڑکوں پر اپنے پیاروں کے لیے احتجاج کرتے بچے اب جوان ہوگئے ہیں لیکن ان کا سوال جوں کا توں ہے کہ ہمارے بابا، بھائی، بیٹے جن کو آپ اٹھا کر لے گئے تھے وہ کہاں ہیں اور کب واپس آئیں گے؟

لاپتا کمیشن کا ذکر ہی چھڑگیا تو یاد دلادیا جائے کہ اس کمیشن کے ایک سربراہ بھی ہوتے ہیں۔ ”سرتاپا“ کسی زمانے میں جن کے چرچے ہوتے تھے۔ اور جن سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس خواتین آتیں تو وہ کہتے کہ چھوڑیں انہیں، آپ ان کے ساتھ تعلق ختم کیوں نہیں کرلیتیں؟ اگلے جملے یہاں لکھنے کی جسارت نہیں کرسکتی۔

بے بسی اور درد کی آگ میں جلتےخاندانوں اور لاپتاافراد نے ہمارے آئین، قانون، عدلیہ، ریاست اور نظام کو کٹہرے میں لاکھڑا کردیا ہے۔ کوئی ریاست اپنے ہی افراد پر اتنا ظلم کیسے کرسکتی ہے؟ عدالتیں خاموش تماشائی کیسےبن سکتی ہیں؟لاپتہ کرنے والوں کا کھیل کب ختم ہوگا؟ سوالات ہی سوالات ہیں جن کا کوئی جواب نہیں۔ اور شاید کبھی ملے گا بھی نہیں کیونکہ سوال کرنے والے جو لاپتا ہوجاتے ہیں۔ اور طاقتور کے لیے سوال سننا موت کی طرح ہوتا ہے!!!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp