خدشات یہی تھے کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد طالبان افغانستان پر ماضی کی طرح قبضہ نہیں کر پائیں گے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اگر مکمل امریکی انخلا کے بعد طالبان نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی بھی تو وہ کئی سالوں تک صرف جزوی طور پر کامیاب ہو سکیں گے۔ مستقل طور پر پورے افغانستان پر قبضہ کرنا اب طالبان کے لئے کسی بھی طرح سے ممکن نہیں۔ لیکن طالبان نے افغان امور کے ماہرین کی اس متفقہ رائے کو غلط ثابت کردیا۔ انھوں نے سالوں نہیں بلکہ کئی مہینوں میں نہ صرف پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا بلکہ پچھلے 25 مہینوں سے اس قبضے کو برقرار رکھنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
افغانستان پر قابض ہونے کے بعد طالبان کے لئے دوسرا بڑا چیلنج وہاں موجود سرکردہ سیاسی رہنماؤں کو قابو میں کرنا تھا۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ اگر طالبان نے افغانستان پر قبضہ بھی کرلیا تو ڈاکٹر عبداللہ، حامد کرزئی، صلاح الدین ربانی، حکمت یار گلبدین اور کئی دوسرے سرکردہ سیاسی رہنما ان کے لئے اندرونی طور پر مستقل خطرہ رہیں گے۔ اس لیے کہ وہ مختلف ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر طالبان حکومت کے خلاف مزاحمت کریں گے جو کہ مستقل طور پر طالبان کے لئے درد سر بنا رہے گا۔ اقتدار میں آنے کے بعد طالبا ن نے افغانستان میں موجود تمام سرکردہ سیاسی رہنماؤں کو قابو کرلیا ہے۔ ان سرکردہ سیاسی رہنماؤں میں کوئی بھی طالبان کے خلاف بات کرنے کے لئے تیار نہیں۔
طالبان کے لئے افغانستان میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے تیسرا بڑا چیلنج علاقائی اور پڑوسی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کرنا تھا۔ گزشتہ دو برسوں میں طالبان نے علاقائی ریاستوں چین، روس، انڈیا، ایران، ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے وسطیٰ ایشیائی ممالک کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی لیکن پاکستان کے ساتھ آنے والے حالیہ تنازعات نےاس پر سوال قائم کیے ہیں۔ داخلی طور پر طالبان کی حکومت عوام کو امن و امان دینے میں کسی حدتک کامیاب ہوئی ہے۔ داعش جو کہ افغانستان میں طالبان کے لئے بڑا خطرہ ہے، اس کو بھی قابو کرنے میں طالبان کی حکومت کوششوں میں مصروف ہے۔
اگرچہ طالبان حکومت نے افغانستان میں بعض محاذوں پر کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن خارجی محاذپر ان کو کئی ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ ا ہے۔ طالبان کے لئے خارجی محاذ پر ضروی تھا کہ وہ اسلامی ممالک کو اعتماد میں لیتے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح طالبان کی حکومت عالمی سطح پر اقوام متحدہ اور ان کے ذیلی اداروں کا تعاون حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے جس کی وجہ سے ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اقوام متحدہ بھی ان کی حکومت تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
عالمی سطح پر اقتصادی پابندیاں طالبان حکومت کے لئے درد سر بنا ہوا ہے لیکن ان دو سالوں میں اس طرف انھوں نے بہت کم ہی تو جہ دی ہے۔ افغانستان میں تعلیم اور خواتین طالبان حکومت کے لئے ایک مستقل مسئلہ ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔ خواتین کو روزگار اور ملازمت کی اجازت نہیں ہے۔ ان دو مسائل کی وجہ سے نہ صرف مغربی دنیا ان سے ناراض ہے بلکہ اسلامی دنیا بھی اس فعل کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتی۔
اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کو درپیش مشکلات میں سے ایک مشکل نوجوانوں کے لئے روزگار اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے تھے، لیکن اس طرف طالبان حکومت تو جہ نہیں دے رہی ہے۔ افغانستان کے نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے، جبکہ طالبان کی حکومت کے کوئی اقدامات بظاہر نظر نہیں آتے۔ مستقبل میں اگر کوئی خطرہ طالبان حکومت کے لئے موجود ہے تو وہ نوجوانوں کی مایوسی، لڑکیوں کی تعلیم پرپابندی اور خواتین کے روزگار اور ملازمت پر بے جا سختی ہے۔
طالبان حکومت نے ملک میں سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس فیصلے سے یہ بات بالکل اظہرمن الشمس ہو گئی ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان میں وہاں کے جمہور کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار نہیں۔ اس فیصلے سے بین الاقوامی برادری میں بھی بے چینی پھیل گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اگرصورتحال یہی رہی تو افغانستان مزید کئی برسوں تک عالمی مدد سے محروم رہے گا۔
یہ بات ضرور ہے کہ چین اور پھر کسی حد تک روس نے طالبان کے طرز حکمرانی پر مغرب کی طرح سوال نہیں اٹھائے۔ لیکن امریکا اور مغربی دنیا طالبان ماڈل کو ہضم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مختصر یہ کہ گزشتہ 25 مہینوں میں طالبان نےاگر بہت کچھ پایا ہے تو بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ اگر غیر جانبدارنہ تجزیہ کیا جائے تو طالبان حکومت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی فہرست ایک برابر سی دکھائی دیتی ہے۔