پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ایک ایسی کرشماتی اور جازبیت سے بھرپور شخصیت ہیں جو اپنی ولولہ انگیز، دلکش اور سحر طاری کر دینے والی تقاریر کے ذریعے پاکستان کے مڈل کلاس طبقے بالخصوص نوجوانوں اور خواتین کو سہانے اور دلکش خوابوں کی دنیا میں لے گئے۔ ان کے ’نئے پاکستان‘ اور ’تبدیلی‘ کے نعروں نے روایتی سیاست کو جنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان کی آواز میں ایسا جادو اور اپنا پن ہے کہ ان کے سپورٹر ان کی ہر سچی جھوٹی بات بغیر تصدیق کیے اسے حقیقت ہی مانتے ہیں چاہے بعد میں عمران خان خود ہی تسلیم کرلیں کہ ان سے غلطی ہوگئی۔
35 پنکچر ہوں یا جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس، عمران خان یہ مان چکے ہیں کہ انہوں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیج کر غلطی کی اور انہوں نے یہ کام کسی اور کے کہنے پر کیا۔ تحریک انصاف کے رہنما فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے لیکن آج کہہ رہے ہیں کہ اگر اس فیصلے پر اس وقت عمل درآمد ہوجاتا تو ملک کے حالات مختلف ہوتے۔ مگر تحریک انصاف کے بیشتر سپورٹرز آج بھی جسٹس فائز عیسیٰ کو ناپسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ذہنوں میں ایسی نفرت بھری گئی ہے جسے نکالنا شاید اب عمران خان یا تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے بس میں بھی نہیں۔
فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پاکستان کی تاریخ کے ایسے فیصلوں میں سے ایک ہے جس کے ملک کی عدلیہ اور سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ 2017 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی نئے وزیراعظم بن چکے تھے جب انتخابی قوانین کے بل میں حلف نامے میں تبدیلی کے خلاف تحریک لبیک نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے اسلام آباد میں فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دیا جو 22 روز تک جاری رہا۔ اس دوران جہاں حکومت خاموش تماشائی بنی رہی وہیں تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے تشدد آمیز دھرنے کی کھل کر حمایت کی۔ مختلف نیوز چینلز پر خبروں اور پروگراموں میں اس کی بھرپور تشہیر کی گئی۔ دھرنے کا اختتام وفاقی وزیرقانون کے استعفے اور تحریک لبیک کے مطالبات پر عملدرآمد کی یقین دہانی پر ہوا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس دھرنے کے پیچھے چھپے محرکات پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے۔ 2 سال تک چلنے والے کیس کے فیصلے نے حکومتی اداروں، ریاستی ایجنسیوں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف چارج شیٹ لگا دی۔ اس کے ساتھ ساتھ فیصلے نے الیکشن کمیشن اور پیمرا کو مزید مضبوط کرنے کی حمایت بھی کردی۔ یہ فیصلہ ملک میں انتہاپسندی کے خلاف ایک بڑا چیلنج بھی ثابت ہوا۔
دوسری طرف اس کیس کے دوران اور فیصلے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے خاندان کو اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑا جس میں تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اسی سوشل میڈیا نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سیرینا عیسیٰ کی کردار کشی اور کرپشن کے الزامات لگائے۔
آج تحریک انصاف ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں وہ اس فیصلے پر عملداری کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکتی تھی۔ جس جماعت نے قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف اپنے ووٹرز کو اکسایا آج وہی تحریک انصاف مطالبہ کرنے پر مجبور ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد ہو نا چاہیے۔ آج تحریک انصاف اسی اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پر ہے جس کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا بگل بجاتی رہی۔
وہ تمام ادارے جو فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیلیں دائر کررہے تھے آج وہی اپیلیں واپس لینے کی درخواستیں دائر کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں، ’اس دھرنے کے بعد ایسے کئی واقعات سامنے آئے۔ اگر اس فیصلے پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے‘۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اب اگر چیف جسٹس اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے زور نہیں ڈالتے تو انہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتے، انصاف، احتساب اور عدلیہ کی ساکھ متاثر کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا اور دوسری صورت میں براہِ راست ٹکراؤ جیسی صورتحال ہوسکتی ہے جو ان حالات میں سازگار نہیں۔