ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف غیر شرعی نکاح کیس کی سماعت جج قدرت اللہ نے کی۔
شیر افضل خان مروت چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ پراسیکیوٹر عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوٹر آج بھی عدالت پیش نہیں ہوئے، گزشتہ سماعت پر عدالت نے پراسیکیوٹر کو آخری موقع دیا تھا۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ جب تک چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان گرفتار نہیں تھے تو وڈیو لنک پر حاضری کی سہولت بھی نہیں تھی، چئیرمین پی ٹی آئی گرفتار ہوئے تو وڈیو لنک پر حاضری کی سہولت بھی آ گئی۔
انہوں نے عدالت میں سوال اٹھایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت طلبی کا نوٹس ہوا تھا، جیل سے جواب آیا؟ جس پر جج قدرت اللہ نے انہیں بتایا کہ جیل سے چیئرمین پی ٹی آئی کے حوالے سے کوئی جواب نہیں آیا۔
دوران سماعت پر معزز جج نے استفسار کیا کہ خاتون شوہر سے طلاق لیتی ہے یا خاوند کا انتقال ہوجائے تو کیا وہ عدت میں وراثت میں حصہ مانگ سکتی؟ وراثت میں حصہ مانگ سکتی ہے تو مطلب یہی ہوتا کہ طلاق موثر نہیں۔
مزید پڑھیں
جج قدرت اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر ایک شخص کی 4 بیویاں ہیں، ایک کو طلاق ہو جاتی ہے لیکن اس کی عدت پوری نہیں ہوئی تو کیا آدمی چوتھی شادی کر سکتا؟
وکیل شیر افضل مروت نے مؤقف اختیار کیا کہ طلاق کا تعین کرنا فیملی کورٹ کا کام ہے، عدت کے دوران نکاح کرنا جرم نہیں ہے۔
شیرافضل مروت نے شاہد اورکزئی کی جانب سے غیرشرعی نکاح پر دائر درخواست کا حوالہ دیا اور عدالت کو بتایا کہ غیرشرعی نکاح پر دائر درخواست فیڈرل شریعت کورٹ نے خارج کی۔
جج قدرت اللہ نے استفسار کیا کہ بشریٰ بی بی کو کب طلاق ہوئی ؟ اس پر اب تک واضح موقف نہیں آیا، الزام ہے کہ غیرشرعی نکاح کی وجہ سے دوبارہ نکاح کیا گیا، جس مولوی نے پہلا نکاح پڑھایا انھوں نے ہی یہ الزام بھی لگایا۔
معزز جج نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ عدت میں نکاح ہوا؟ جس پر وکیل شیر افضل مروت نے مؤقف اپنایا کہ جس نے الزام لگایا اس نے ثابت کرنا ہے کہ دوران عدت نکاح ہوا، دورانِ عدت نکاح ثابت ہو بھی جائے تو سزا نہیں ہوسکتی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کیا غیرشرعی نکاح کیس عوامی مفاد کا کیس ہے؟ کیس بدنیتی پر مبنی ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر عمران خان کے وکیل سے کچھ سوالات کے جوابات طلب کر لیے۔
عدالت نے قرار دیا کہ آئندہ سماعت پراسیکیوشن کی درخواست کے بعد دیں گے۔