پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت ملتوی، پیر کو فیصلہ سنا دیں گے، چیف جسٹس

منگل 3 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کو پیر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ہے کہ 9 اکتوبر کو کیس کا فیصلہ سنا دیں گے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ جب مارشل لا لگے تو بھول جاتے ہیں، ہتھیار پھینک دیتے ہیں، جب پارلیمنٹ کچھ کرے تو کھڑے ہو جاتے ہیں، کمرہ عدالت میں آویزاں سابق چیف جسٹس صاحبان کی تصویروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں اتنی تصویریں لگی ہیں، انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کیخلاف درخواستوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے سماعت کی۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار مدثر حسن جوڑا کے وکیل حسن عرفان سے دریافت کیا کہ آپ کا موقف یہ ہے کہ سپریم کورٹ کوئی فیصلہ کر دے تو اس پر اپیل کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، ازخود اختیارات پر سماج اور وکلا نے بہت تنقید کی ہے، شکر کی قیمت طے کرنے لگ جاتے ہیں، پارلیمنٹ کہتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اختیارات بڑھا رہے ہیں۔

چیف جسٹس بولے؛ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ ہو تو یہ تو ہمارے لیے اچھا ہے لیکن اس سے آپ کس طرح متاثر ہو رہے ہیں، سپریم کورٹ نے کتنے مارشل لا کی توثیق کی ہے، اگر پارلیمنٹ کہتی ہے کہ یہ توثیق غلط ہے تو کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

حسن عرفان نے موقف اختیار کیا کہ اگر ازخود اختیارات فیصلوں پر اپیل کا حق دیں گے تو سپریم کورٹ کے فیصلے ہر چیف جسٹس کے ساتھ بدلتے رہیں گے اور ان میں کوئی یقینی صورتحال نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے کہتے تھے کہ فلاں ڈاکٹرائن ہے کیس لگ ہی نہیں ہو سکتا، میں فرد کا نام نہیں لوں گا، یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ آپ اپنی تاریخ پہ نظر رکھیے آپ نے یکدم پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ حسن عرفان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فرد واحد نے اس ملک کو خراب کیا، اب اگر اس قانون میں اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں اور مشاورت کا کہا گیا ہے تو یہ ہماری مشکل ہے، آپ کو اس سے کیا دقت ہے۔

مزید پڑھیں

سماعت آج ہی مکمل کرنے کا عندیہ

سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ اس قانون کا اثر چیف جسٹس اور سینئر ججز پر ہوتا ہے، ایک طرف چیف جسٹس کا اختیار کم نہیں محدود کیا جا رہا ہے، دوسری طرف یہی اختیار دو سینئر ججز میں بانٹا جا رہا ہے، اس کا اثر آنے والے چیف جسٹس پر بھی ہو گا۔

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ آج کیس کا اختتام کریں، ایک ہی کیس کو لے کر نہیں بیٹھ سکتے، سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے مقدمات زیر التوا ہیں، کوٸی مزید بات کرنا چاہے تو تحریری صورت میں دیدیں۔

اکرام چوہدری کے دلائل

درخواست گزار نیاز اللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ازخود اختیارات پر 3 رکنی کمیٹی کو فیصلے کے اختیارات تفویض کرنے سے سپریم کورٹ رولز 1980 کی خلاف ورزی اور سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت ہے۔

اکرام چوہدری ایڈووکیٹ کا موقف تھا کہ ازخود اختیارات میں ترمیم صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ممکن ہے۔ اس ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوا ہے، پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ منظور کر کے عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کی ہے، جو کہ ہمارے آئین میں اختیارات کی تقسیم کے تصور کے خلاف ہے۔

اس موقع پر اکرام چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے دلائل کی بنیاد اخباری خبریں ہیں، آپ نے اس سلسلے میں اسپیکر قومی اسمبلی کو کوئی خط لکھا؟ اطلاعات تک رسائی ہمارے آئین کا حصہ ہے لیکن آپ نے اسپیکر قومی اسمبلی سے سوال نہیں کیا۔

’آپ نے اپنا استحقاق استعمال نہیں کیا اور آپ ہمارے سامنے آ گئے، آپ خود کو قوم کا نمائندہ نہ کہیں، نہ آپ قوم کے نمائندے ہیں نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔‘

اکرام چوہدری نے جب سابق وزیراعظم سے متعلق خبر پڑھ کر سنائی تو چیف جسٹس بولے؛ آپ یہ باتیں میڈیا پہ کریں۔ وہ خبریں نہ پڑھیں جن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، عدالت کو سیاسی بحث کے لیے استعمال نہ کریں، میڈیا موجود ہے وہاں جا کر سیاست کریں، قانونی دلائل دیجیے کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کے حق کو صلب کیا۔

اکرام چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس بولے؛ حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بن گیا ہے، آپ یہ بتائیں کہ یہ آئین سے متصادم ہے یا نہیں۔ اکرام چوہدری نے موقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم صرف دو تہائی اکثریت سے ہی کر سکتی ہے، یہ ایکٹ بنیادی طور پر خلاف آئین و قانون اور عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ ہے۔

جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ کا یہ کہنا شاید ٹھیک نہ ہو کہ آئینی ترمیم سے ہوجاتا تو ٹھیک تھا، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے اکیسویں آئینی ترمیم کے معاملے میں اس عدالت نے کہا تھا کہ عدالت جائزہ لے سکتی ہے، آپ بتائیں کہ ہم اس ایکٹ کا کس طرح سے جائزہ لے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اکرام چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ عدالت کی آزادی پر حملہ ہے، یہ بتائیں کہ عدالتی آزادی نایاب ہوتی ہے یا یہ لوگوں کے لیے ہوتی ہے، آپ عدالتی آزادی سے آگے نہیں جا رہے۔ کل اگر پارلیمنٹ کہتی ہے کہ بیواؤں کے مقدمات کو ترجیح دی جائے گی تو یہ خلاف آئین ہو گا یا نہیں۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اگر کل پارلیمنٹ قانون بناتی ہے کہ بیوہ عورتوں کے کیسز کو ترجیح دیں تو کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی، قانون سازی اگر لوگوں کو انصاف دینے کا راستہ ہموار یا دشوار کر رہی ہے تو بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اور سے بھی ہے۔

اکرام چوہدری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئینی نظیروں کی روشنی میں اس ایکٹ نے عدلیہ کے اختیارات سلب کر لیے ہیں؛ جس پر چیف جسٹس بولے؛ جو آئینی نظیر آپ نے پیش کی، اس میں عدلیہ کو حکومت کے ماتحت ایک شعبہ کہا گیا ہے، میں تو اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتا۔

دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئینی نظائر میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر عدالت کوئی ایسا قانون بنانے کی کوشش کرتی ہے جو اس کے اختیارات سے ماوراء ہے تو یہ آئین کے ساتھ فراڈ ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے اکرام چوہدری سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ آئین سازی کے اختیارات کیا ہیں اور یہ ایکٹ کس طرح خلافِ آئین ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے بھی اکرام چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ 45 منٹ بحث کر چکے ہیں آپ کے پاس کوئی اور متعلقہ اہم سوال ہیں تو بتائیں، ہمارے پاس اور بہت سارے مقدمات ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ اس ایکٹ سے کون سی آئینی شق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ آج کے بعد یہ مقدمہ نہیں چلے گا یا پھر رات تک بیٹھنے کے لیے تیار رہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ پہلے یہ بتائیں کہ پارلیمنٹ کے آئین سازی کے اختیارات کیا ہیں پھر یہ بتائیں کہ یہ ایکٹ کونسی آئینی شق سے متصادم ہے۔ اکرام چوہدری بولے؛ آرٹیکل 239 کے تحت اگر پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ، دو تہائی اکثریت کے بغیر قانون سازی نہیں ہو سکتی۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا مقصد انصاف تک رسائی ہے، جس میں اپیل کا حق دیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ کہ انصاف تک رسائی کیسے آئین کے خلاف ہے، جس پر اکرام چوہدری بولے؛ پارلیمنٹ نے وہ کام کیا جو اس کے اختیار میں نہیں تھا باقی گزارشات تحریری طور پر پیش کروں گا۔

حسن عرفان خان کے دلائل

ایک اور درخواست گزار مدثر حسن جوڑا کے وکیل حسن عرفان خان ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کیخلاف دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل صدر مملکت کو بھیجا گیا جنہوں نے بطور پارلیمنٹ کا حصہ اس بل پر اعتراض کیا اور ایک پریس ریلیز جاری کی۔

اس موقع پر چیف جسٹس بولے؛ صدر کی پریس ریلیز کو ایسے نہیں مانیں گے، آپ اس کو اپنی درخواست کا حصہ بنائیں، آفس سے اس کو نمبر لگے گا، ایسے نہیں مانیں گے۔

وکیل حسن عرفان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 184 تین کا استعمال آئین نے سپریم کورٹ پر لازم قرار دیا، جس پر چیف جسٹس بولے؛ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 184 تین کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس نہیں بلکہ پوری سپریم کورٹ کے پاس ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو اپنے ضابطے کے رولز بنانے کیلئے بااختیار بناتا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ججز کمیٹی پر تقسیم کر دیا، سپریم کورٹ خود اپنے اختیارات کو ایک یا جتنے بھی ججز میں تقسیم کر سکتی ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات کا تقدس ہے۔

ایڈووکیٹ حسن عرفان سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ ذہن میں رکھیے کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جو انصاف تک رسائی کے لیے بنایا گیا ہے اور اس میں اپیل بھی انصاف تک رسائی کے لیے رکھی گئی ہے۔

وقفہ کے بعد عدالتی کارروائی

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کیخلاف درخواستوں پر فل کورٹ کی جانب سے سماعت میں وقفہ کے بعد حسن عرفان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کی آڑ میں دراصل میں آئین میں ترمیم کر دی ہے، آرٹیکل 184 تین خاموش ہے کہ کون سا خاص حق متاثر ہو گا تو نوٹس ہو سکے گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے حسن عرفان سے دریافت کیا کہ آپ اب تک درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل دے رہے ہیں، صرف یہ بتا دیں کہ کون کون سی دفعات سے آپ اتفاق یا مخالفت کر رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ آپ مفاد عامہ کی بات کر رہے ہیں جس میں آئین کے پہلے حصے میں لکھے بنیادی حقوق آتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ انصاف تک رسائی کے لیے کیا قانون سازی نہیں ہوسکتی، درخواست گزار اس کیس سے کیسے متاثرہ فریق ہے؟ جس پر حسن عرفان بولے؛ میرا موکل وکیل ہے اور نظام انصاف کی فراہمی کا اسٹیک ہولڈر ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین بنانے والوں نے ازخود اختیارات مقدمات میں اپیل کا حق نہیں دیا، اگر اپیل کا حق دینا ہے تو وہ صرف آئینی ترمیم کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ جسٹس شاہد وحید نے نکتہ اٹھایا کہ اگر پارلیمنٹ کی نیت ٹھیک ہو لیکن اس قانون سازی میں اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو اس قانون کو درست قرار دیں گے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ درخواست کے قابلِ سماعت ہونے کے بارے میں اس ایکٹ کا سیکشن تین کہتا ہے کہ رجسٹرار کی بجائے تین ججوں پر مشتمل کمیٹی فیصلہ کرے گی، صرف اس بنیاد پر یہ قانون مسترد ہو سکتا ہے، جب کہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس سے قبل چیف جسٹس جو مقدمات کی سماعت کے لیے ’پک اینڈ چوز ‘کرتے تھے کیا وہ درست تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے استفسار پر کہ پارلیمنٹ آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر پر قانون سازی کر سکتی ہے، حسن عرفان ایڈووکیٹ بولے؛ نہیں کر سکتی۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ آپ سے سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 191 کے ساتھ اگر آرٹیکل 58 کو ملا کر پڑھیں تو کس طرح پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی؟

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنا سکتی ہے اگر وہ آئین اور نافذ العمل قوانین سے متصادم نہ ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ اس بات سے میں تو یہ سمجھا ہوں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی موجودگی میں بھی سپریم کورٹ اپنے رولز وضع کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک آپ اعتراف نہ کریں اصلاح نہیں ہو سکتی، مولوی تمیز الدین مقدمہ میں پہلے کہا گیا کہ غلط فیصلہ تھا پھر کہا گیا ٹھیک تھا، پھر کہا غلط تھا، آپ ہمت کیوں نہیں کرتے اور کہتے کہ سپریم کورٹ غلط تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کہیں دنیا میں پارلیمنٹ کے قانون سے بالا کوئی قوانین بن سکتے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اس قانون میں ازخود اختیارات میں اپیل کے حق کو بڑھایا گیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ حق پہلے سے موجود تھا جس کو بڑھایا گیا، آپ بتائیے کہ اختیارات کو بڑھایا گیا یا یہ نیا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔

ایڈووکیٹ حسن عرفان کا موقف تھا کہ یہ نیا اختیار ہے کیونکہ اس سے پہلے اس طرح کی اپیل کا اختیار نہیں تھا جیسا اس قانون کے تحت فراہم کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کا موقف

پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کے اختیارات کہاں سے حاصل کرتی ہے، اس میں ایک آرٹیکل 142 اور کچھ دوسرے پرو وژن ہیں، آرٹیکل 191 کے تحت پارلیمنٹ کو اس طرح کی قانون سازی کا اختیار نہیں۔

عزیر بھنڈاری کا موقف تھا کہ پارلیمنٹ صرف ان معاملات پر قانون سازی کر سکتی ہے جن کا ذکر فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ میں ہے؛ جس پر چیف جسٹس بولے؛ قانون سازی کی لسٹ میں خلائی پروگرام اور مصنوعی ذہانت کا ذکر ہے نہ ہی سوشل میڈیا کا، کیا پارلیمنٹ اسپیس پروگرام کے حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکتی؟ اگر قانون سازی ہوتی ہے تو پارلیمنٹ کونسا اختیار استعمال کرے گی؟

عزیز بھنڈاری نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی قانون سازی فہرست کے علاوہ کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی، ان کی جانب سے امریکی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس بولے؛ امریکی عدالت کو چھوڑیں اپنے آئین کی بات کریں۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے وکیل جھنجھلا کر بولے؛ جناب میں اسپیس پروگرام کے حوالے سے کیس تیار کرکے نہیں آیا، دو سماعتوں سے میں سن ہی رہا ہوں اب آپ بھی مجھے بولنے دیں، جس پر چیف جسٹس نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے طریقے سے دلائل دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تحفظ کا نہیں بلکہ آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے یہاں تک کہ وہ کسی بنیادی حق سے متصادم نہ ہو۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے عزیز بھنڈاری سے استفسار کیا کہ اس سے پہلے آمروں اور پارلیمنٹ نے اس طرح کی قانون سازی نہیں کی اب کیا ضرورت پڑی۔ چیف جسٹس بولے؛ بھنڈاری صاحب آپ کو بہت سے سوالوں کا سامنا ہے مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔

چیف جسٹس کے اہم ریمارکس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا آرٹیکل 184/3 کا اختیار غیر معمولی ہے، جس کا اختیار کسی اور ملک میں نہیں، اگر سپریم کورٹ کو غیر معمولی اختیار دیا جاسکتا ہے تو کیا واپس نہیں ہوسکتا، پہلے بھی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کو اختیارات دیے اب اگر اس کو بدل رہے ہیں تو کیا مسئلہ ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا زیادہ دماغ مل کر سوچیں تو بہتر ہوگا یا پھر صرف ایک چیف جسٹس فیصلے کرے، موجودہ ایکٹ سے چیف جسٹس کے اختیارات کیسے کم ہورہے یہ سمجھائیں، جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ آرٹیکل 184 تین کا اختیار پہلے سے موجود ہے اس میں صرف ایک اپیل کا حل دیا گیا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا موقف تھا کہ اپیل کا حق ایک بنیادی حق ہے جس کو باقاعدہ قانون سازی سے دیا جانا چاہیے۔ عام قانون سازی سے یہ حق نہیں دیا جا سکتا، کیا اس سے پہلے پارلیمنٹ اکثریت سے ترمیم نہیں کر سکتی تھی۔ اس وقت پر یہ قانون سازی کرنا کیوں ضروری تھی؟

جس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ اس سوال کو ماضی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا موقف تھا کہ آرٹیکل 191 کو پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار کی شق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، اگر سپریم کورٹ کے کوئی رولز نہ ہوتے تو آرٹیکل 191 کو کیسے دیکھا جاتا، سپریم کورٹ اپنے قوانین نہ بناتی تو کیا قانون سازی کے ذریعے نہیں بنائے جا سکتے تھے۔

تحریک انصاف کے وکیل عزیز بھنڈاری سے جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ فرض کریں پارلیمنٹ ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون بناتی ہے جو سپریم کورٹ رولز سے مطابقت نہیں رکھتا ایسی صورت میں قانون کی بالادستی ہو گی یا رولز کی۔ عزیز بھنڈاری بولے؛ ایسی صورت میں رولز بالادست ہوں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپیلٹ باڈی کا قیام بنیادی حقوق میں آتا ہے، توہین عدالت سے متعلق آرٹیکل 204 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، پارلیمنٹ نے آرڈیننس کے تحت 204 میں اپیل کا حق دیا ہے، پہلے اس نکتے کی وضاحت کر دیں کہ اپیل کا وہ حق کیسے درست ہے اور یہ غلط ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے 184/3 میں وزیراعظم کو نااہل قرار دیا، آرٹیکل 204 میں کہاں لکھا ہے کہ اپیل کا حق حاصل ہوگا؟ جس پر عزیز بھنڈاری بولے؛ آرٹیکل 184/3 میں کہاں لکھا ہے کہ اس کا اطلاق قانون کے تحت ہوگا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عزیر بھنڈاری سے سوال کیا کہ آرٹیکل 6 کے تحت غداری کی سزا کی میعاد عدالت پہ چھوڑی گئی ہے لیکن اس میں اپیل کا حق ہے، کیا آپ کہتے ہیں کہ اپیل کا حق غیر آئینی ہے؟ توہین عدالت میں اپیل کا حق دے دیا گیا ہے، اگر اپیل دے دی گئی تو کیا قیامت آ گئی؟

’اب آپ ایک سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں، آپ نے یہ باتیں پارلیمنٹ میں نہیں کیں یہاں عدالت میں آگئے، ہو سکتا ہے آپ پارلیمنٹ میں یہی خوبصورت دلائل دیتے تو آپ کی بات مان لی جاتی۔‘

چیف جسٹس بولے؛ فرض کریں میں غصے میں فیصلہ دے دوں کہ مسٹر بھنڈاری عدالت کا وقت ضائع کرتے ہیں ان پر تمام عدالتوں میں پیش ہونے پر پابندی لگا دی جائے، آپ کہاں اپیل کر پائیں گے، ازخود اختیارات فیصلوں کے خلاف اپیل کے خلاف اگر اپیل کا حق دیا گیا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔

’یہ تو چیف جسٹس کو مطلق العنان بنانے کی بات ہے، آپ پارلیمنٹ کے خلاف چلے جاتے ہیں، سپریم کورٹ چیف جسٹس کی مطلق العنانی پر بات نہیں کرتے، آپ بتا دیں کہ دنیا میں کہاں ایسا ہے کہ ایک عدالت نے فیصلہ دے دیا اور اس کے خلاف کہیں فیصلہ نہیں ہو سکتا، یہ ٹھیک ہے تو پھر باقی عدالتیں بند کر دیتے ہیں کہ سپریم کورٹ ہی آخری فیصلہ کرے، وقت بھی بچے گا۔‘

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا سپریم کورٹ ازخود اختیارات فیصلہ کے خلاف اپیل دے سکتی ہے ؟ عزیر بھنڈاری بولے؛ نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تو پھر سوال یہ ہے کہ یہ قانون نہ ہوتا تو اپیل کا حق کیسے مل سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے عزیز بھنڈاری سے استفسار کیا کہ اپیل کے حق سے تحریک انصاف کو کیا فائدہ یا نقصان ہو رہا ہے، جس پر انہوں نےعدالت کو بتایا کہ کوئی فائدہ یا نقصان نہیں۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ایک مثال دے دیں کہ دنیا کی کسی عدالت میں سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہے۔

وکیل عزیر بھنڈاری کا موقف تھا کہ باہر دنیا میں جانے کی کیا ضرورت ہے اپنے ملک کی مثال دیکھ لیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امریکہ اور ہماری عدالت میں ایک بنیادی فرق ہے کہ وہاں فل کورٹ بیٹھتی ہے، امریکہ میں تو غلامی تھی خواتین کو ووٹ کا حق برصغیر کے بعد ملا، ہم امریکہ سے زیادہ متاثر کیوں ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ امریکی عدالت میں ازخود نوٹس کا بھی تصور نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو اپیل کا حق ہے ہی نہیں، اپیل کتنے ججز سنیں گے کیا نمبر ہو گا یہ بعد کی بات ہوگی، یہ سوال کہ فل کورٹ بیٹھ کر کیس سن رہی ہے اس کی اپیل کون سنے گا، اس کا سادہ سا جواب ہے کہ فل کورٹ اگر بیٹھ کر غلط فیصلہ کرے تو بات ختم۔

’فل کورٹ کے بیٹھنے سے بات ختم ہو جاتی ہے، اگر قانون کالعدم ہوگیا تو اپیل کا حق ہی ختم ہوجائے گا، اگر 17 ججز نے بھی بیٹھ کر غلطیاں کرنی ہیں تو اپیل کا حق ہونا ہی نہیں چاہیے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فرض کریں اگر میرا رویہ غیر معقول ہو جاتا ہے اور میرے ساتھی ججز کہتے ہیں کہ فل کورٹ اجلاس بلائیں لیکن میں کہتا ہوں نہیں، پھر تو سارے ملک سارے ججز کی قسمت خراب ہو جائے گی۔

’۔۔۔پارلیمنٹ کہتی ہے کہ مسٹر چیف جسٹس آپ کا رویہ ٹھیک نہیں، لیکن کوئی میرے رویے پر چیک نہیں رکھ سکتا ہے ، یہ مطلق العنانیت ہے، جمہوری اور اسلامی تصورات کہاں گئے۔‘

جسٹس مسرت ہلالی کے ریمارکس

جسٹس مسرت ہلالی نے پہلی مرتبہ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں نے سب کو اسٹاپ کر دینا ہے، سپریم کورٹ رولز 1980 میں بنے اس وقت آئین نہیں تھا، تو میرے خیال میں آئین میں غیر آئینی طریقے سے ترمیم کی گئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے وکیل عزیز بھنڈاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں ، جو کل اکثریت حاصل کر سکتی ہے، میں آپ کی بات سے جو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ کی جماعت کو پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں۔ کل عدلیہ کی آزادی سے متعلق قانون سازی ہو تو آپ کا کیا موقف ہو گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے عزیر بھنڈاری سے استفسار کیا کہ کیا آپ پرانے نظام وک سپورٹ کرتے ہیں جس میں چیف جسٹس کے پاس مطلق العنان اختیار ہوتے تھے، جس کے جواب میں پی ٹی آئی وکیل نے کہا نہیں!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp