ازبک یوٹیوبر اولیمجون حیدروف کو جولائی 2023 میں ازبکستان کے مشرقی شہر کوکند سے بھتہ خوری کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ حیدروف کی ویڈیوز مختلف سماجی اور معاشی مسائل پر مرکوز ہیں۔ ان پر ایک شاپنگ سینٹر کے مینیجر کو مضمون لکھنے کی دھمکی دینے اور رقم لینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق حیدروف متاثرین سے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ حیدروف کو جرم ثابت ہونے کی صورت میں 10 برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ وہ واحد بلاگر نہیں جسے حراست میں لیا گیا ہے۔
عبدالقادر مومنوف کو 8 فروری 2023 کو حراست میں لیا گیا تھا، ان پر بھتہ خوری کا الزام عائد کیا گیا تھا اور انہیں 4 اگست 2023 کو مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
جنوری 2023 میں خورشید دالیئوف، مسلم مرزاجانوف اور دیگر کئی صحافیوں کو دفاتر پر چھاپوں کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
ازبکستان کی اسٹیٹ سیکیورٹی سروس، جو قومی انٹیلی جنس ایجنسی بھی ہے، نے صحافیوں پر بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کا الزام لگایا تھا۔ اب ان کے خلاف مقدمات خفیہ طور پر چلائے جا رہے ہیں۔
سابق رکن پارلیمنٹ اور عوامی کارکن رسول کوشربائیوف نے کہا ہے کہ ’وہ حیدروف کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور ان کے خلاف الزامات پر یقین نہیں رکھتے۔ اولیمجون کے خلاف مجرمانہ الزامات صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے کا مفروضہ ہیں۔ وقت بتائے گا کہ اصل میں کیا ہوا تھا۔
مزید پڑھیں
گزشتہ چند برس کے دوران صحافیوں نے ازبک صدر مرزایوف کی حکومت کی طرف سے دی گئی میڈیا کی محدود آزادیوں کی حدود کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ حکام نے نڈر بلاگرز پر نظر رکھی اور متعدد کو گرفتار بھی کیا ہے لیکن اسے وسیع پیمانے پر میڈیا کی آزادی کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن کے طور پر نہیں سمجھا گیا تھا۔
فیس بک، یوٹیوب اور ٹیلی گرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی مرکزی نقطہ بن گئے جہاں ازبک آزادانہ طور پر پالیسیوں پر تبادلہ خیال اور تنقید کرنے کے قابل تھے۔ حیدروف جیسے بلاگرز کو سرکاری اداروں میں بدعنوانی اور اقربا پروری جیسے مسائل پر عوامی بحث کی قیادت کرنے کا موقع ملا۔ لیکن تازہ گرفتاریوں سے لگتا ہے کہ حکام واقعی اظہار رائے کی آزادی کو روکنے کی راہ پر گامزن ہیں۔
صحافی، صدر کی جانب سے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکامی، سست معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی اشرافیہ اور اقربا پروری کے بارے میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ازبکستان اپنے ماضی میں جانا شروع ہو گیا ہے۔کیوں کہ سیکیورٹی سروسز اب وہی طریقے استعمال کر رہی ہیں جو سوویت کے جی بی نے استعمال کیے تھے۔ کے جی بی نے لوگوں کو دبایا تھا، اگر یہ ادارہ بحال ہو جاتا ہے تو کسی کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف کارروائیوں نے ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف کی مصلح کے طور پر امیج کو نقصان پہنچایا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے انہوں نے بچوں سے جبری مشقت کو روکنے میں اہم پیش رفت کی تھی اور معیشت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا ہے لیکن اظہار رائے کی آزادی کا وعدہ تاحال وفا نہیں ہوا۔