افغان باشندوں کی بے دخلی کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

بدھ 4 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حکومت نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ افغانستان واپس چلے جائیں  اور مذکورہ تاریخ سے قبل ہی اپنی دکانیں و دیگر جائیدادیں بھی فروخت کر لیں بصورت دیگر ان کے خلاف قانونی کارروائی کے علاوہ ان کے تمام اثاثے بھی ضبط کر لیے جائیں گے۔

وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے استفسار کیا کہ افغان باشندوں کی پاکستان سے بے دخلی سے حکومت اور پاکستانی عوام کو کیا کیا فوائد حاصل ہوں گے۔ اس پر تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اس عمل سے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو جائے گی اور ڈالر و دیگر اشیا کی اسمگلنگ کی روک تھام بھی ہوگی جس سے مہنگائی پر قابو پایا جا سکے گا۔

تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چوںکہ افغانی پاکستان میں 40 برس سے پناہ گزین ہیں اور دنیا ہمارے ملک کی اس قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اس لیے اب انہیں اس طرح اچانک 30 دنوں میں بے دخل کردینے سے کوئی اچھا پیغام نہیں جائے گا۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر ظفر ہلالی نے کہا کہ پاکستان نے افغانیوں کو کچھ وقت کے لیے پناہ دی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ  یہاں پر پکے ڈیرے ہی ڈال لیں اور یہاں کے مستقل باشندے اور سوسائٹی کا حصہ ہی بن جائیں۔

ظفر ہلالی نے کہا کہ افغانی اس وقت پاکستان میں نوکری، ٹرانسپورٹ اور وہ سب کام کر رہے ہیں جو ہمارے لوگوں کا حق ہے لہٰذا ان کی بے دخلی سے پاکستانی عوام کے لیے نوکریوں اور کاروبار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

سابق سفیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت کو اس بات کی کوئی فکر ہی نہیں کہ ان کے 40 لاکھ افراد پاکستان میں مقیم ہیں اور اس کے علاوہ افغان حکومت افغانستان سے پاکستان آ کر دہشت گردی کرنے والوں کو بھی نہیں روک رہی۔

انہوں نے توجہ دلائی کہ افغانیوں کا کاروبار صرف اور صرف اسمگلنگ ہے اور وہ پاکستان سے ڈالر اور دیگر اشیا اسمگل کرتے ہیں جس سے پاکستانی معیشت کو بہت نقصان پہنچتا ہے جبکہ افغانستان میں منشیات بنائی جاتی ہیں جو دیگر ممالک کے علاوہ پاکستان بھی پہنچ جاتی ہیں لہٰذا افغانیوں کی بےدخلی سے منشیات کے استعمال میں بھی کمی آئے گی۔

ظفر ہلالی نے کہا کہ افغان باشندوں کی بے دخلی سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی کمی آئے گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوتے ہیں یا جو دہشت گرد تیار ہوتے ہیں وہ کون کرتا ہے‘؟ انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو افغانستان میں دہشت گردی سکھائی جاتی ہے اور پاکستان میں مقیم افغانیوں کو وہاں لے جاکر تربیت دی جاتی ہے۔

سابق سفیر کا کہنا تھا کہ جس طرح افغانی پاکستان میں مقیم ہیں اس طرح کوئی بھی شخص کسی بھی ملک میں قیام نہیں کر سکتا اور اب اگر حکومت نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغانیوں کی بے دخلی کا فیصلہ کیا ہے تو افغانیوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو چھوڑ کر چلے جائیں۔

تاہم سینیئر صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود حکومت کے اس فیصلے سے کلی طور پر متفق نہیں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ افغانیوں کی بے دخلی سے پاکستان کو کوئی معاشی فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے احسان اللہ محسود نے کہا کہ حکومت نے افغانیوں کی پاکستان سے بے دخلی کا اعلان تو کر دیا لیکن ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ یہ اعلان ملک میں حالیہ دہشت گردی کی جوابی کارروائی کے طور پر کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ پاکستان میں صرف انہی لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت دی جائے جن کے پاس پاسپورٹ اور ویزا ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ غیر قانونی دستاویزات پر پاکستان میں داخل ہونے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہونا چاہیے۔

احسان اللہ محسود نے کہا کہ ہم نے 40 لاکھ افغانیوں کو پاکستان میں جگہ دی ہوئی ہے اور گزشتہ 40 سال سے افغانی پاکستان میں مقیم ہیں جس کے لیے پاکستان نے بے حد قربانیاں دی ہیں لیکن حکومت کے اس فیصلے سے پاکستانی قربانیوں پر پانی پھر جائے گا اس لیے اسے چاہیے کہ افغانیوں کو پاکستان سے نکل جانے کے لیے ایک ماہ نہیں بلکہ 2 سے 3 ماہ کا وقت دے تاکہ ایک اچھے طریقے سے افغانیوں کو یہاں سے رخصت کیا جا سکے۔

سینیئر صحافی نے کہا کہ میں بہت سے ایسے افغانیوں کو جانتا ہوں جن کے ویزے کی معیاد ختم ہو چکی ہے اور انہوں نے ویزے میں توسیع کے لیے درخواست دی ہوئی ہے تاہم کافی عرصے سے ان کی درخواست منظور نہیں کی جا رہی۔

احسان اللہ محسود نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں صرف افغانی ملوث نہیں ہیں اور ہمارے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں کہ ایسی کارروائیوں کے پیچھے بھارتی اینٹیلیجینس ایجنسی را کا بھی ہاتھ ہوتا ہے لہٰذا دہشت گردوں کے کرتوتوں کی سزا عام افغانیوں کو نہیں دینی چاہیے۔

سینیئر صحافی نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد افغانستان سے بہت سے لوگوں نے پاکستان کا رخ کیا اور اس میں 80 فیصد تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کہ بہت مالدار ہیں اور ان کے رشتہ دار یورپ اور امریکا میں مقیم ہیں ایسے افغانیوں نے پاکستان میں بہت سی سرمایہ کاری کی جبکہ ان لوگوں کو ان کے عزیز و اقرباء کی جانب سے بھاری رقوم بیرون ملک سے بھیجی جاتی ہے جس سب سے پاکستان کو بہت سے معاشی فوائد حاصل ہیں لہٰذا حکومت کی جانب سے تمام افغانیوں کی بے دخلی سے پاکستانی معیشت کے کوئی فوائد نہیں حاصل ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp