افغانستان سے تناؤ، بات اب ٹی ٹی پی کے سرنڈر تک جائے گی!

جمعرات 5 اکتوبر 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایپکس کمیٹی نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ملک سے نکل جانے کے لیے یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ اس ڈیڈ لائن سے ہفتہ پہلے افغانستان میں طالبان حکومت نے صورتحال کا اندازہ لگا لیا تھا۔ ظاہر ہے سفارتی ذرائع سے انہیں پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا کہ اب بس، مزید مہمان داری ممکن نہیں ہے۔

باختر نیوز ایجنسی نے 26 ستمبر کو خبر دی کہ پاکستان سے افغانستان واپس آنے والے مہاجرین کے لیے جگہ کا اتنخاب کرلیا گیا ہے۔ ملا ہیبت اللہ نے پاک افغان طورخم بارڈر کے پاس لعل پورہ میں کیمپ کے قیام کے لیے جگہ کی منظوری دی۔ اس کیمپ میں واپس آنے والے مہاجرین 3 سے 10 روز قیام کریں گے۔ رجسٹریشن کرنے کے بعد انہیں امدادی سامان دے کر ان کے آبائی علاقوں میں بھجوا دیا جائے گا۔

پاکستان نے کافی سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے، 11 لاکھ افغان مہاجرین کو نکالنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ پہلے مرحلے میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو نکالا جائے گا۔ ان کے کاروبار اور بے نامی جائیدادیں ضبط کرنے کے علاوہ ان کی پاکستانی باشندوں کے نام پر جائیدادیں اور کاروبار بھی بند کیے جائیں گے۔

اس سے پہلے افغانستان جانے والی خوراک کی اسمگلنگ روکنے کے لیے سخت کارروائی کی گئی، حوالہ، ہنڈی اور ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کا ہدف بھی افغان باشندے ہی بنے۔ اس کارروائی کے بعد پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر ڈالر کی قیمت ایک سے 2 روپیہ گر رہی ہے۔ پاکستان کی ریئل اسٹیٹ میں افغان مہاجرین کی سرمایہ کاری 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یہ کارروائی اگر ایسے ہی جاری رہی تو پراپرٹی کی قیمتیں آسمان سے زمین پر آجائیں گی۔

افغانستان آنے جانے کے لیے کئی قسم کی دستاویزات کی سہولت میسر تھی۔ ان اجازت ناموں کو ’تذکرہ‘ کہا جاتا ہے۔ صرف چمن بارڈر سے تذکرہ پر آنے جانے والوں کی تعداد لگ بھگ 40 ہزار روزانہ ہے۔ ہر قسم کے اجازت نامے منسوخ کرکے اب سنگل دستاویز پاسپورٹ اور ویزہ کو ہی حتمی طور پر لاگو کیا جارہا ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور اس سے پہلے کبھی نہیں کیے گئے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں افغانستان میں طالبان حکومت دباؤ کا شکار ہوگئی ہے۔

ایک حاضر سروس جنرل منیر افسر کو چیئرمین نادرا تعینات کیا گیا ہے۔ اس تعیناتی کا تعلق بھی بہت حد تک افغان مہاجرین کے ساتھ ہے۔ جنرل صاحب کی مہارت آئی ٹی، ڈیٹا، جیوگرافک انفارمیشن سسٹم، ریموٹ سینسنگ اور مصنوعی ذہانت سے متعلق ہے۔ وہ اقوام متحدہ میں بھی جی آئی ایس آفیسر کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ فوج میں بھی ان کی ذمہ داریاں آئی ٹی کے شعبے سے ہی متعلق رہی ہیں۔

اس تقرری کے پیچھے ایک وجہ افغان مہاجرین کا نادرا سے جعلی پاکستانی شناختی دستاویز حاصل کرنا بھی ہے۔ پچھلے 4 سال میں ہزاروں افغان خاندان پاکستانی فیملی ٹری کا جعل سازی سے حصہ بنائے گئے ہیں۔ ان کی شناخت اور ان کے شناختی کارڈ کینسل کرنا جنرل صاحب کے لیے بڑا ٹاسک اور چیلنج ہے۔

پاکستان کو اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف ہماری غیر دستاویزی معیشت پر افغانی چھائے ہوئے ہیں تو دوسری طرف سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کی کوشش کے متوقع نتائج نہیں مل رہے۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ اس سال ہونے والے 24 خودکش دھماکے 14 افغان باشندوں نے کیے، 8 سال بعد 2023 ایسا سال ہے جس میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ بلند ترین سطح پر ہے۔

اٖفغان طالبان کی جانب سے کابل سنبھالنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے اس کو اپنے لیے ایک موقع سمجھا اور پاکستان میں اپنی کارروائیوں میں اضافہ کردیا۔ جو وقت ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں ضائع کیا گیا وہ وقت ٹی ٹی پی نے اپنی ری اسٹرکچرنگ اور تنظیم نو میں صرف کیا۔ افغان سرزمین پر موجود ٹی ٹی پی پاکستان میں کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی جبکہ افغان طالبان حکومت ان کو روکنے میں ناکام رہی۔ کئی سو کلومیٹر طویل راستے اور کئی دن کے سفر کے بعد ٹی ٹی پی افغانستان کے اندر سفر کرتے ہوئے پاکستان کے پُرامن ضلع چترال پر حملہ آور ہوگئی۔

اس ساری صورتحال نے پاکستان کی بس کرا دی ہے لیکن حالات کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے ملک کی سیاسی قیادت کو فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے کہ وہ امن نافذ کرنے کے عمل کی قیادت، پلاننگ اور اس پر عمل درامد کرے۔ پاکستان میں امن کے بغیر معیشت نہیں سنبھلنی۔ ٹی ٹی پی کی جاری کارروائیاں شریعت یا مذہب کے تحت نہیں بلکہ یہ انتقام اور بدلے پر مبنی کارروائیاں ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغان حکومت پر دباؤ ڈالا گیا تو ٹی ٹی پی بھی لازمی دباؤ کا شکار ہوگی۔ پاکستان کا افغان حکومت سے ایک ہی مطالبہ بنتا ہے کہ ٹی ٹی پی مکمل طور پر سرنڈر کرے۔ تاہم اس مطالبے پر ابھی تک دونوں ملکوں کے درمیان کوئی اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے۔

اس بات کو چھوڑیں اور صرف اس پر غور کریں کہ جس نے ٹی ٹی پی سے یہ سرنڈر کروا لیا، وہ پھر طاقت کی کس پوزیشن پر کھڑا ہوگا؟ یہ وہ پوزیشن ہے جہاں سے بہت ہی بنیادی نوعیت کے فیصلے اب تک معطل چلے آرہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے سرنڈر کرنے کے بعد ان فیصلوں کو کرنے کے لیے اس پوزیشن کو اخلاقی طاقت حاصل ہوجائے گی کہ نہیں۔ یہ سب ہوگا کیسے اور اس کے ہونے کے کتنے امکانات ہیں، یہ جاننے کے لیے ابھی انتظار کرنا ہوگا۔ افغانستان کی عبوری حکومت پر دباؤ فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ اس بار ملک دشمن عناصر کے مالی مفادات پر ضرب لگنے والی ہے، اس بار صرف وعدوں اور باتوں سے مشکل ٹالنا ممکن نظر نہیں آتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp