شناختی علامت۔ ہتھیلی پر زخم کا نشان

منگل 21 فروری 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مجھے بچپن سے ہی شاعر کہلانے اور شعر کہنے کا بہت شوق تھا مگر بد قسمتی سے شعر کہنے کی قدرتی صلاحیت نصیب نہیں ہوئی۔ شعر کہنے کے لئے بنیادی طور پر دو علوم سے واقفیت بے انتہا ضروری ہے۔ ریاضی اور موسیقی۔ ریاضی میں تعلیمی استعداد کبھی تینتیس نمبر سے آگے نہیں گئی اور موسیقی میں بھی بس اتنی شد بد ہے کہ اتنا بتا سکتا ہوں کہ گلوگار پکا راگ گا رہا ہے یا ابھی راگ پکا رہا ہے۔ یہ نہیں کہ میں نے شعر لکھنے کا ہنر سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔

علم العروض سیکھنے کے لئے بارہا معروف شاعر پروفیسر احسان اکبر کی کلاس میں جا پہنچا۔ جس دن انہوں نے ”شاعر“ اور ”متشاعر“ کا فرق بیان کیا اس کے بعد ان کی کلاس میں جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اپنے تئیں پھر بھی شعر کہنے کی کوشش کرتا رہا لیکن کبھی قافیہ روٹھ جاتا، کبھی ”الف“ گر جاتا، کبھی بحر چھوٹی پڑ جاتی اور کبھی اوزان خطا ہو جاتے۔ ”شعریت“ کو قابو کرتا تو ”معنویت“ روٹھ جاتی اور معنویت پیش نظر رکھتا تو شعریت کا سرا ہاتھ سے چھوٹ جاتا۔ اسی کھینچا تانی سے بچنے کے لئے نثر کا میدان آزمایا۔ لیکن یقین مانیے اب بھی ان لوگوں پر بہت رشک اتا ہے جو نہایت سہولت سے کسی خیال کو نظم کر لیتے ہیں۔ صائمہ زیدی کی شاعری پڑھ کر تو یہ رشک حسد میں بدل جاتا ہے۔ جس سہولت سے صائمہ زیدی کسی خوشنما خیال کو پابند کرتی ہیں اس پر حسد ہی کیا جا سکتا ہے۔

صائمہ زیدی ہماری بہت زمانے کی دوست ہیں۔ جب وہ اسلام آباد میں ہوتی تھیں تو تب بھی یہاں نہیں ہوتی تھیں۔ ان کا قیام جرمنی میں ہے تو اب بھی ان کے شعر کی خوشبو سے یہ سارا شہر مہکتا رہتا ہے۔ ان سے ملاقات ہوئے عرصہ بیت گیا۔ لیکن جو ملاقات ہے اس کا تاثر آج تک قائم ہے۔ علم، حلم اور ہنر کا ایسا خوش کن امتزاج مقدر کی بات ہے۔ ان کے شعر میں وہ توانائی ہے کہ ہنر اور حوصلے دونوں کی داد دینے کی خواہش ہوتی ہے۔

لہجہ، لحن، اسلوب، آہنگ اور انداز سب دلفریب۔ ان کے اشعار میں ذہانت بھی ہے اور متانت بھی، لطافت بھی ہے اور نزاکت بھی، شائستگی بھی ہے اور شستگی بھی، وقار بھی ہے اور معیار بھی۔ مہین جذبوں کو لفظ کرنا دشوار کام ہے۔ ریت سے شیشہ تخلیق کرنا دشوار کام ہے۔ خواب کو تعبیر کرنا دشوار کام ہے۔ صائمہ زیدی کے شعر کا خمیر کٹھن جذبوں سے اٹھا ہے۔ لیکن بے مائیگی کے اظہار میں ہیجان نہیں ترنم ہے۔ غزل ہے۔ نظم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں محنت تو نظر آتی ہے مگر مشقت کا تاثر نہیں ملتا۔ یہ اشعار اس ابتدائی گفتگو کا بین ثبوت ہیں۔
راہزن میرے تعاقب میں چلے آتے ہیں
تو کہاں ہے؟ مری آواز پہ آنے والے

چشم کے پھول، سمن زار بدن، سرخئی لب
سب ترے باغ میں کھلنے کے لیے آئے تھے

وہ چاند کی سمت دیکھتی تھی میں آخر شب
کہ تیرا چہرہ مرے دوپٹّے سے چھن رہا تھا

عصر حاضر میں چند ایک کو چھوڑ کر قریبا تمام ہی شاعرات پر پروین شاکر کا رنگ غالب رہا۔ کچھ نے خود اس انداز کو اپنانے کی کوشش کی اور کچھ کا فطری میلان ہی ایسا رہا۔ پروین شاکر کو جو عروج نصیب ہوا وہ ان کا انداز اپنانے والی کسی بھی شاعرہ کو مقدر نہ ہو سکا۔ صائمہ زیدی نے دانستاً اس اثر سے بچنے کی کامیاب کوشش کی۔ گرچہ موضوعات ان کے بھی محبت اور اس کی وارفتگی ہی رہے۔ اس وارفتگی سے کشید کردہ غم کو ہی صائمہ نے قلم کیا مگر بات تو انداز بیان کی ہے۔ ان کا لہجہ بارہا ان کو پروین سے ممتاز کرتا ہے۔

کسی کے ہجر میں جلنا تو خاک ہو جانا
دلوں کو عشق سکھاتا ہے پاک ہو جانا

ٹانکنا میرے زرد دوپٹّے میں پھول اور ستارے
تجھ مہ رو کو آتا ہے یہ رمز ایجاد بھی کرنا

اسی شعری انفرادیت کی بناء پر شاید محسن بھوپالی نے صائمہ زیدی کے فن کو کچھ اس طرح پرکھا ”صائمہ اپنی ہم عصر شاعرات سے متاثر ہونے کے باوجود غزلوں اور بالخصوص نظموں میں اپنا ایک الگ اور منفرد لہجہ بنانے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔“

محبت وہ آفاقی جذبہ ہے جو شعر میں ڈھلتا ہے تو اسے امر کر دیتا ہے۔ صائمہ نے ذات کے اظہار کے لئے اسی جذبے کا انتخاب کیا۔ ان کی شاعری میں یہ جذبہ پوری شدت، حدت اور جدت کے ساتھ موجود ہے۔ وہ اظہار سے نہ خوفزدہ ہیں نہ ان کو بات کہنے سے قلم روکتا ہے۔ وہ مدہم لہجے میں دھیرج سے اپنی بات کہتی ہیں اور اس پر قائم رہنے کا حوصلہ بھی سکھاتی ہیں۔

مل، کہ اب جا کے میسر ہوئی پوری خلوت
آ، کہ اب دشت بدن بیچ میں حائل نہ رہا

ایک ہم ہیں کہ پرکاہ بھی چاہے نہ ہمیں
ایک توہےکہ تجھے ساراچمن چاہتا ہے

صائمہ زیدی اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتی ہیں ”میرے اطراف آئینے ہی آئینے ہیں اور ان آئینوں میں بٹے ہوئے زندگی کے ہزار ہا عکس ایک آئینے سے دوسرے آئینے کا سفر ایک حیرت سے دوسری حیرت کا سفر ہے۔ حیرانی سے اس شہرِ آئینہ کو دیکھتی ہوں بے بسی سے ہاتھ ملتی ہوں ہزار ہا رنگین کواڑوں والے زندگی کے شہرِطلسمات کے پہلے دروازے کی دہلیز پر پڑتے میرے یہ قدم، اور عرصۂ عمر مختصر۔ زندگی شاید کبھی سمجھ نہ آئے“۔

ہر بڑا شاعر اپنے ساتھ اپنے الفاظ اور اپنے استعارے لے کر آتا ہے۔ وہ نئے لفظ تراشتا ہے، نئی تراکیب تلاشتا ہے، نئی تلمیحات بناتا ہے۔ اس کار دگر میں اگر کاوش نظر آئے تو فن خاک ہو جاتا ہے۔ صائمہ زیدی کے ہاں نئے لفظ بھی ملتے ہیں اور نت نئے استعارے اور کنائے بھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کے شعر میں اس جدت سے یبوسیت نہیں پیدا ہوتی بلکہ بے ساختہ پن اور تروتازگی کا احساس ہوتا ہے۔ جب ہی تو ان کی شاعری کے ہم ہی قتیل نہیں ایک زمانہ ان کے شعر کا معترف ہے۔

صائمہ زیدی کی شاعری کے بارے میں احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں ”اس کے ایک ایک مصرعے میں چھپے ہوئے جوہر کی دریافت نے مجھے سرشار کر دیا“۔

صائمہ زیدی اس عہد کی وہ شاعرہ ہیں جو عمر سے کئی دہائیاں آگے کا سفر کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ پہلی کتاب ”دھوپ لوں ہتھیلی پر“ آئی تو خوب شہرہ ہوا۔ شہرت نے ان کو مزید خاموش بنا دیا۔ حجاب بڑھا دیا۔ صائمہ زیدی مشہور ہونے سے بال بال بچتی رہیں۔ شہرت کے جنجال سے ڈرتی رہیں۔ یہی خوف، خاموشی اور خدشہ ان کو جرمنی لے گیا۔ لیکن شاعر فاصلے بڑھنے سے بدلتا نہیں، نکھرتا ہے۔

صائمہ زیدی کی شاعری میں محبت اور اس کی افسردگی کے سوا مزاحمت کا موضوع بھی بہت توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ وہ صرف آئینہ نہیں دیکھتی بلکہ بسا اوقات اس سارے سماج کو آئینہ دکھا بھی دیتی ہیں۔ یہ کام وہ سوچنے والا ذہن کر سکتا ہے جو اپنے گرد و پیش سے بے خبر نہیں ہے۔ یہ اشعار اس بات کی مثال کے طور پر دیکھیے

سوچ رکھنا بھی جہاں جرم بغاوت ٹھہرے
لب کشائی کی وہاں کیا کوئی صورت ٹھہرے
تم کو تو قتل بھی جائز ہو بنام غیرت
میں اگر شعر بھی کہہ دوں تو بغاوت ٹھہرے
ظلمت جبر، لہو، خوف، سلاسل، پہرے
دیکھیے اب کہاں رہوار سیاست ٹھہرے

صائمہ زیدی کی شاعری میں ہتھیلی کا استعارہ بہت خوبی سے استعمال ہوا ہے۔ ان کی پہلی کتاب کا نام بھی ”دھوپ لوں ہتھیلی پر“ ہے۔ وہ اس استعارے کے تمام تر امکانات کو بروئے کار لا کر شعر میں سموتی ہیں۔ جیسے

صبا سے جب بھی کوئی پھول مانگوں
ہتھیلی پر وہ سوکھے ہات رکھ دے

یا پھر ان کی مختصر نظم دیکھیے کہ
چاند ڈھل گیا جاناں
خواب نیم شب ٹوٹا
کہہ رہی ہے چشم نم
دھوپ لوں ہتھیلی پر
اور مانگ میں بھر لوں

صائمہ زیدی کے شناختی کارڈ پر ان کی شناختی علامت۔ ہتھیلی پر زخم کا نشان ہے۔ اس مضمون کے شروع میں ہی میں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ میں بوجوہ کسی کی شاعری پر تبصرہ یا تجزیہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اسی لئے مضمون کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ مجھے تو صائمہ زیدی کی شاعری پڑھ کر ہمیشہ یہی لگا کہ وہ بہت خوبی سے اپنی ہتھیلی کے زخم کو آئینوں پر تحریر کرتی رہی ہیں۔ اپنی تمام عمر کو شعر میں تصویر کرتی رہی ہیں۔

(جرمنی میں مقیم پاکستانی باکمال شاعرہ صائمہ زیدی کے فن و شخصیت کے حوالے سے ایک تحریر)

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp