’افغانستان واپس بھیجنا ایسا ہے جیسے سزا کے لیے جیل میں ڈالنا ‘

جمعہ 6 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’افغانستان واپس کرنا ایسا ہے جیسے سزا کے لیے جیل میں ڈالنا ہو، جہاں کوئی زندگی میں مشکلات کے علاوہ کچھ نہیں، اور خواتین کے لیے جیل ہے۔‘ یہ کہنا ہے 45 سالہ افغان خاتون حلیمہ کا جو طالبان کی حکومت آنے اور افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگنے کے بعد اپنے بچوں سمیت پاکستان آئی تھیں اور اب یہیں رہ رہی ہیں۔

حلیمہ پاکستان حکومت کی حالیہ غیر ملکیوں کو واپس کرنے کے فیصلے پر کافی پریشان ہیں۔ اور اس سے جلد بازی قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ یہ فیصلہ جلد بازی میں لیا گیا ہے۔ یہ انسانی زندگیوں کا سوال ہے ایسے فیصلے صبر سے لینا چاہیے ہیں۔

بچیوں کو تعلیم سے محروم نہیں کر سکتی

حلیمہ پشاور کے بورڈ بازار جسے منی کابل بھی کہا جاتا ہے میں سبزی اور اشیا ضروریہ خریدنے آئی تھیں ان سے بات کی گئی تو انہوں نے وی نیوز کو  بتایا کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اعلان کے بعد ان کی نیند اڑ گئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے بعد 4 بچوں کو لے کر پاکستانی آئی تھی۔ میں خود وہاں ایک اسکول میں پڑھاتی تھی اور میری 2 بچیاں اسکول میں تھیں جو بعد میں طالبان کی جانب سے پابندی کے بعد تعلیم سے محروم ہوئی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ کہ وہ صرف بچیوں کی تعلیم کے لیے پاکستان آئی ہیں اور یہاں سے کسی اور ملک جانے کی بھی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ واپس جانے کا مطلب عذاب میں ڈالنے کے برابر ہے اور وہ اپنی بچیوں کو تعلیم سے محروم نہیں کر سکتی ہیں۔ اور وہ کسی صورت بھی واپس نہیں جائیں گے۔

وہاں کام اور روزگار نہیں ہے

مطیع اللہ بورڈ بازار میں سبزی فروش ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ محنت مزدوری کرکے کماتے ہیں۔ وہ بھی حالیہ فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے لیے مہاجر لفظ مصیبت ہے۔ کہیں بھی کچھ ہو جائے افغان مہاجرین کا نام لیا جاتا ہے جو ہمارے لیے مشکلات کا باعث ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی پیدائش پاکستان کی ہے اور وہ کبھی افغانستان نہیں گئے۔ وہ خود قانونی طور پر رہ رہے ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں سے پریشان ہیں۔ ان کے رشتہ دار، جاننے والے اور دوست احباب مشکلات کی وجہ سے پاکستان آئے تھے اب وہ اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔

فرہات خان بھی بورڈ بازار میں کاروبار کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں کوئی سہولت نہیں ہے، نہ کام ہے اور نہ روزگار ہے۔ وہاں جا کر کیا کریں گے۔

پاکستان میں کاروبار اور جائیدادیں ہیں

افنان احمد کے والد نے ان کی پیدائش سے پہلے پاکستان آئے، یہاں آنے کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا، ان کا ریسٹورنٹ اور دکانیں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان ان کا ملک ہے اور یہاں ہی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ اردو بول سکتے ہیں اور یہاں پر ان کے دوست بھی ہیں جبکہ افغانستان میں ان کا کچھ بھی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ پریشان ہیں کہ ان کے مستقبل کا کیا ہو گا۔ کاروبار اور جائیداد وغیرہ کا کیا ہوگا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہر کوئی ان کا کاروبار اور جائیداد سستے داموں خریدنے کے چکر میں ہے۔

موبائل چوری سے دہشتگردی کے واقعات میں افغان ملوث

قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی بدامنی میں افغان شہری ملوث ہیں۔ خودکش حملہ آور افغانستان سے آتے ہیں، جبکہ مختلف شہروں میں چوری اور ڈکیتی کے واقعات میں بھی افغان ملوث ہوتے ہیں۔ موبائل چوری کرکے اور دیگر جرائم کرکے افغانستان نکل جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے تفیصلی رپورٹ تیار کی ہے۔ جس میں پاکستان میں مقیم غیر قانونی باشندوں کی جرائم میں ملوث ہونے اور جائیدادیں خریدنے کی نشاندہی دہی ہوئی ہے جس پر کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp