عالمی بینک نے حکومت پاکستان کو تازہ ترین مشورہ دیا ہے کہ 50 ہزار روپے تک ماہانہ تنخواہ یا آمدن والوں پربھی ٹیکس عائد کیا جائے تاکہ حکومت اپنی آمدن میں اضافہ کرسکے۔ کچھ عرصہ پہلے اسی عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے پاکستان میں غربت اور بیروزگاری کو کم کرنے کے لیے اشرافیہ یعنی مقدس گائے پرمزید ٹیکس لگانے اور غریبوں کو سبسڈی دینے پر زور دیا تھا۔ عالمی اداروں نے مجوزہ اصلاحات کے ذریعے ریئل اسٹیٹ اور زراعت کے شعبوں، جنہیں اشرافیہ کا آشیرباد حاصل ہے، پر ٹیکس عائد کرکے مطلوبہ نتائج اور اخراجات کم کرنے پر زور دیا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ حکومت کا زور بھی آخرکار غریب عوام اور تنخواہ دار طبقے ہی پر چلتا ہے؟ اس بوسیدہ نظام کو بدلنے والی اشرافیہ مخلص کیوں نہیں؟ عالمی ادارے بھی صرف اپنا قرض مع سود وصول کرنے کے لیے اصلاحات کا تھوڑا بہت دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔
قیام پاکستان کے وقت نوزائیدہ ریاست کو لاتعداد مسائل کا سامنا تھا جو کہ اب بھی ہے۔ تعلیم یافتہ، ہنرمند افرادی قوت، کاروبار اور صنعتوں کا شدید فقدان تھا۔ ریاستی امور اورسرکاری نظم و نسق چلانے کی خاطر مختلف محکموں میں بھرتی کے لیے گھر گھر جا کر ایسے افراد تلاش کیے گئے جنہوں نے مڈل یا سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ ہر گھر کے سربراہ کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچے کو میٹرک کرتے ہی سرکاری محکمے میں بھرتی کروا دے۔ سفارش اور جعلی ڈگریاں بنوا کر لوگوں کو نوکریاں دلوائی گئیں۔ انہی نالائق افراد نے اپنے محکموں میں رشوت خوری کی روایت ڈالی۔ یہ لوگ برطانوی راج سے وراثت میں ملنے والے سرکاری رعب و دبدبے کا خوب استعمال کرتے ہوئے ان پڑھ عوام اور اشرافیہ سے ہر سرکاری کام کے عوض رشوت وصول کرنے لگے۔ اشرافیہ نے بھی اپنے ہر جائز و ناجائز کام کے لیے سرکاری فائلوں کو ‘پہیہ’ لگا دیا۔ آج بھی شاید ہی کوئی ایسی کاروباری شخصیت ہو جس نے بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں۔
ایف بی آر ہو یا بجلی کے محکمے، سرکاری افسروں اور ملازمین جن کا بھی بس چلا انہوں نے رشوت لیے بغیر کام کرنے کی عادت ہی ترک کردی۔ ایسے میں سیاستدان بھی پیچھے نہ رہے، انہوں نے بھی ملک لوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایماندار اور اصول پسند سیاستدان یا افسر کسی صورت قابل قبول نہ رہے۔
سرکاری محکمے کسی نئے کاروبار کرنے والے کو اس قدر تنگ کرتے ہیں کہ وہ رشوت دینے پر مجبور اور اس کے عوض ٹیکس نہ دینے کا تہیہ کرلیتا ہے۔ ایف بی آر کے افسران اور ملازمین کاروباری افراد کو بھاری ٹیکس کے نوٹس بھیجتے ہیں جسے دیکھ کر وہ بلبلا اٹھتا ہے۔ ایسے نوٹس بھیجنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ فیکٹری مالک، کاروباری شخصیت یا دکاندار ایسے وکیل ڈھونڈیں جو ایف بی آر کے افسران سے مل کر ڈیل کرواتے ہیں تاکہ کم سے کم ٹیکس ادا کیا جا سکے۔ بیشتر کاروباری افراد یہ کہہ کر ٹیکس دینے سے انکاری ہوتے ہیں کہ کسی ‘کرپٹ’ حکومت کو کیوں ٹیکس ادا کریں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت ٹیکس وصولی میں 70 فیصد حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے جبکہ ڈائریکٹ ٹیکس سے اکٹھا ہونے والا ٹیکس محض 30 فیصد ہوتا ہے۔ آمدن پر ٹیکس وصولی کی شرح 2 فیصد ہے جو انتہائی کم ہے، اسے کم از کم 5 فیصد ہونا چاہیے۔ غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ ہے جبکہ امیر اور کاروباری طبقہ اپنا منافع کم کرنے کے بجائے ٹیکس یا ڈیوٹیز میں ہونے والا اضافہ غریب صارف پرمنتقل کردیتا ہے۔
اس صورت حال میں حکومت ٹیکس کا سارا بوجھ تنخواہ دارطبقے پرڈال کر لوئر مڈل کلاس کو بھی خط غربت کی لکیر سے نیچے لے آئی ہے۔ حیرانی یہ ہے کہ حالیہ چند سال میں تاریخی مہنگائی بھی عوام کو سڑکوں پر نہیں لاسکی۔ اسی برداشت کی وجہ سے ملک کی اشرافیہ اصلاحات کے بجائے غریب طبقے پر بوجھ ڈالنے کو ترجیح دیتی ہے۔
عالمی ادارے چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ اپنے محکموں میں اصلاحات لائیں، ٹیکس نیٹ بڑھائیں، اخراجات کم کریں۔ انہیں کیا بتائیں کہ اصلاحات لانے والی کرپٹ اشرافیہ ہی تو سرکاری محکموں میں بھرتی اور کرپٹ افسران کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے چل رہے ہیں۔ ملک کے پورے نظام کو دیمک لگ چکی ہے اور آج پاکستان اپنی بقاء کی جنگ لڑرہا ہے۔