اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارہ (یو این ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ پاکستان میں 10 لاکھ یا زائد غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکی شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے، پکڑنے، انہیں حراستی مراکز میں رکھنے، کھانا کھلانے اور سرحد تک پہنچانے یا پاکستان سے بے دخل کرنے کا بندوبست کرنے کے لیے ایک مربوط لاجسٹک پلان اور انسانی و مالی وسائل کی ضرورت ہوگی۔
خیبرپختونخوا کی ایپکس کمیٹی کی سفارشات پر وفاقی اپیکس کمیٹی نے چند روز قبل تمام غیرقانونی تارکین وطن کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا ہے، بصورت دیگر انہیں قید یا پھر ملک سے بے دخل کر دیا جائے گا، جن میں بڑی تعداد افغان شہریوں کی بھی شامل ہے۔ مختصر ڈیڈ لائن نے ملک بھر میں افغان کمیونٹی میں ہلچل مچا دی ہے، جن میں سے نصف سے زیادہ ضم شدہ قبائلی اضلاع سمیت خیبرپختونخوا میں مقیم ہیں۔
خیبرپختونخوا میں کتنے افغان پناہ گزین موجود ہیں؟
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی ) کے مطابق خیبرپختونخوا کے سرکاری حکام نے اس حوالے سے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاون تیز کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، سرکاری حکام کے مطابق صوبے بھر میں مجموعی طور پر 9 لاکھ 56 ہزار720 افغان مقیم ہیں، بندوبستی اضلاع میں 2 لاکھ 85 ہزار 608 جبکہ 22 ہزار 39 افغان قبائلی اضلاع میں موجود ہیں۔
مزید پڑھیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں مقیم 6 لاکھ 48 ہزار 968 افغان مہاجرین کے پاس رجسٹریشن کارڈ موجود ہے جبکہ 105 افغان مہاجرین مساجد میں پیش امام ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 3 ہزار 911 افغان مہاجرین کو مختلف جرائم میں گرفتار کیا گیا جب کہ 597 افغان باشندوں نے غیر قانونی طور پر پاکستان کا قومی شناخت کارڈ بنانے کی بھی تصدیق کی جنہیں فوری منسوخ کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی، رواں سال ایک لاکھ 16 ہزار 418 افغان شہریوں کو ویزے جاری کئے گئے تاہم افغان مہاجرین کے کاروبار اور جائیداد سے متعلق کوئی مستند معلومات موجود نہیں ہے۔
پہلے بھی ایسے منصوبے بنائے گئے
رپورٹ کے مطابق افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کا طویل عرصے سے ایجنڈا ہے، خاص طور پر دسمبر 2014 میں نیشنل ایکشن پلان بننے کے بعد منصوبے بنائے گئے اور حکمت عملی مرتب کی گئی، تاہم انسانی اور مالی وسائل کے ساتھ قابل عمل لاجسٹک منصوبہ تیار کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
سرکاری حکام نے بتایا کہ اس طویل مسئلے کے حل کے لیے اب سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے جو توجہ حاصل کر رہا ہے، لیکن اس کے لیے ایک مناسب منصوبے کی ضرورت ہے، 2017 میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افراد کی رجسٹریشن مہم چلائی گئی، جس کے نتیجے میں افغان سٹیزن کارڈز جاری کیے گئے اس کے بعد انہیں وطن واپس بھیجنے کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا۔
فیصلہ ہونے کے بعد وسائل متحرک کرنے کے مشورے
سرکاری حکام نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ غیر قانونی رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو وطن واپسی کے کسی بھی منصوبے میں نقشہ سازی، حساسیت، لاجسٹکس کے علاوہ انسانی اور مالی وسائل کو متحرک کرنا شامل ہونا چاہیے۔ سرکاری حکام نے بتایا کہ اس وقت یہ سب سے بڑا چیلنج ہے، پاکستان 1951 کے مہاجرین کنونشن یا 1967 کے پروٹوکول کا دستخط کنندہ نہیں ہے اور پی او آر اور اے سی سی رکھنے والے مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے پرعزم ہے، لیکن لاکھوں مہاجرین بشمول غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کی موجودگی اب قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے، یہ وقت کی ضرورت ہے، لیکن ہمیں اسے صحیح طریقے سے ہینڈل کرنا چاہیے۔
یو این ایچ سی آرکے مطابق پاکستان میں 21 لاکھ 80 ہزار افغان مہاجرین قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں جن میں 07-2006 کی مردم شماری کے مطابق 13 لاکھ افراد ایسے ہیں جن کے پاس رجسٹریشن کارڈز کا ثبوت ’پی او آر‘ موجود ہے جبکہ 2017 کی رجسٹریشن کے بعد مزید 8 لاکھ 80 ہزار افراد کو افغان سٹیزن کارڈز جاری کیے گئے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق افغانستان میں اگست 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تقریباً 6 سے 8 لاکھ افغان شہری پاکستان آئے، ان میں سے کچھ کے پاس درست ویزے تھے، جو اب ختم ہو چکے ہیں۔