ڈی این اے ٹیسٹوں نے کیسے چند افراد کی زندگیاں بدل دیں؟

جمعہ 6 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ماہرین کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ کروانا ٹھیک تو ہے لیکن اپنی نسل اور نسب کے بارے میں جاننا تھوڑا دشوار ہو سکتا ہے۔ آج ہم ان چند لوگوں کی کہانی بتائیں گے جنہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کروایا اور نتائج نے ان کی زندگی ہی بدل دی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل اپنے آباؤ اجداد کو ڈھونڈنا یا اپنے حیاتیاتی خاندان سے دوبارہ ملنا بہت مشکل ہوا کرتا تھا لیکن اب قدرے آسان ہے۔

اگر آپ کو اپنے جینوم یا نسلی شناخت معلوم نہیں تو آپ کیا کریں گے؟ دنیا میں چند ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے یہ جاننے کے لیے سرتوڑ کوششیں کی ہیں۔ ان چند لوگوں میں کارا روبینسٹین بھی شامل ہیں، جنہوں نے 2017 میں کرسمس کے موقع پر اپنے والد کا اور اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا۔ حال ہی میں بی بی سی نے کارا روبینسٹین سے متعلق ایک رپورٹ بھی شائع کی۔

کارا روبینسٹین

کارا یہ جاننا چاہتی تھیں کہ ان کے آباؤ اجداد افریقہ میں کہاں سے آئے تھے۔ وہ چاہتی تھیں کہ اپنے تینوں بچوں کو افریقہ لے کر جائیں اور اپنے آباؤ اجداد کی جائے پیدائش کی جگہ دیکھ سکیں۔ جس کو انہوں نے اپنی جڑوں کی تلاش کے دورے کا نام دیا۔

اسی طرح دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے اپنے ڈی این اے کو ٹیسٹ کے لیے بھیجا ہے، جن میں 20 فیصد برطانوی اور2 کروڑ سے زیادہ امریکی شامل ہیں۔ کیونکہ بہت سے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہم واقعی کون ہیں، اور ہم کہاں سے آئے ہیں۔

امریکا میں رہنے اور ایک سفید فام ماں اور ایک سیاہ فام باپ کے ساتھ پرورش پانے والی، کارا روبنسٹین ڈیئرن بچپن سے نسل پرستی کا شکار رہی ہیں، اسکول میں بچے ان کو اوریو، آدھی ذات اور زیبرا کے نام سے پکارتے تھے۔ امریکا میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ جلد کے رنگ کو دیکھ کر پہچان لیا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا نسب افریقی ہے یا کوئی اور ہے۔

کارا روبینسٹین کے بچپن کی تصویر

کارا روبنسٹین کے اپنے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج ان کی 44 ویں سالگرہ سے ٹھیک پہلے ایک پائی چارٹ کی شکل میں سامنے آئے۔ فینیش، جرمن اور انگریزی نسب نے پائی کا ایک آدھا حصہ لیا، اور دوسرے نصف میں اس کے 50 فیصد اشکنازی یہودی ہونے کا پتا لگا۔ وہ شخص جس نے روبنسٹین ڈیئرن کو پالا تھا وہ اس کا باپ نہیں تھا اور اس کے پاس کوئی افریقی امریکی ورثہ بھی نہیں تھا۔

ڈی این اے کے نتائج کے بعد روبنسٹین کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ وہ نا تو امریکی تھی نا افریقی بلکہ ایک یہودی خاندان سے تھیں، وہ بھی اشکنازی خاندان جس کا انہوں نے کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ پہلے تو وہ حیران ہوئیں لیکن بعد میں مسکرائی کہ شاید میری ماں ایک بار کسی یہودی اشکنازی سے مل چکی ہیں۔

کارا روبنسٹین کا ماننا ہے کہ آپ کی نسلی شناخت آپ کو دنیا میں کچھ دعوے دے سکتی ہے، آپ کو مخصوص جگہوں تک رسائی دلا سکتی ہے، اور سب سے بڑھ کر آپ کو دوسروں سے الگ کر سکتی ہے۔ اقلیتی گروپ کا حصہ ہونے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو امتیازی سلوک، بربریت اور یہاں تک کہ نسل کشی کا سامنا کرنے کا زیادہ امکان ہے۔

لیکن جیسا کہ روبنسٹین ڈیئرن کی والدہ جانتی تھیں، یہ آپ کو بعض پروگراموں اور اسکالرشپس کے لیے اہل ہونے کی اجازت دے سکتا ہے، کیونکہ امریکا میں جو مقامی ہیں یا وسکونسن میں مقیم ہوں وہ قبائلی دولت کے 2 ہزار ڈالر کے لیے اہل ہوتے ہیں۔

یو کے یونیورسٹی کالج لندن میں ارتقائی جینیات کے پروفیسر  مارک تھامس جینیاتی نسب کی جانچ پڑتال کے ماہر ہیں۔ تھامس کا کہنا ہے کہ جینیاتی نسب کی جانچ میں ماضی میں مضحکہ خیز دعوے کرنے والے لوگوں کی ایک بہت ہی اچھی تاریخ ہے۔ انہوں نے جب پہلی بار ان دعووں کی صداقت پر سوالات اٹھائے تھے اس کے بعد حالات میں بہتری آئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آپ کا حیاتیاتی نسب آپ کی نسل نہیں ہے، نسل ایک سماجی طور پر متعین کیٹیگری ہے۔ نسل کے بارے میں خیالات روایتی طور پر نسب پر زیادہ مبنی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گھر پر ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والی کمپنیوں کی ویب سائٹس پر ایسے صفحات ہیں جو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا نسلی تخمینہ نامکمل ہے اور وہ محض اندازوں پر کام کرتے ہیں۔

ان کے مطابق لوگوں کے عام طور پر ایک سے زیادہ نسب ہوتے ہیں، اور بائیو میڈیکل ریسرچ عام طور پر یورپی نسل کے لوگوں کے ڈی این اے پر مرکوز ہوتی ہے، یعنی متنوع آبادیوں سے بہت کم دستیاب ڈیٹا موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نسل کے تخمینے کے بجائے، حالیہ آباؤ اجداد کو لوگوں کے ایک گروپ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جو کسی نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مقامی امریکی آبادی کے ساتھ ڈی این اے میچ دکھانے اور مقامی امریکی شناخت کا دعوٰی کرنے والے ٹیسٹ کے نتائج کے درمیان اہم فرق کو نمایاں کرتا ہے۔

ایک اور امریکی شہری جیکبسن اپنے ورثے کے بارے میں اس وقت سے سوچ رہی تھیں جب 50 سال پہلے ان پر ایک آف ہینڈ تبصرہ کیا گیا تھا۔ وہ کوئنز، نیویارک میں پلی بڑھی، اور وہ ڈینش تارکین وطن کی بیٹی ہیں جو 1947 میں امریکا آئے تھے۔

کرسٹین جیکبسین

جیکبسن کا کہنا ہے کہ وہ 16 سال کی تھیں تو اس کی ماں کے بوائے فرینڈ نے کہا تھا کہ جیکبسن کے حیاتیاتی والد سیاہ فام تھے۔ اس وقت تک، جیکبسن کو اس بات پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ 100 فیصد ڈینش کے علاوہ کچھ اور ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ دنگ رہ گئی تھیں کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں کیونکہ وہ تو دیکھنے میں گوری ہی لگ رہی تھیں۔

جیکبسن کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے تصدیق کے لیے اپنا ڈی این اے کروایا تو پائی چارٹ سے معلوم ہوا کہ وہ 25 فیصد جنوبی افریقی ہیں، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ان کے حیاتیاتی والد افریقی ہیں اور وہ ڈانسر تھے۔

جیکبسن نے تجربہ کرتے ہوئے خود کو اور اپنے بیٹے کو افریقی لباس پہنایا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا ان کے اندر افریقی عادات پائی جاتی ہیں یا نہیں، لیکن ان کے بیٹے کو یہ بات پسند نہیں آئی اور وہ افریقی لباس میں خود کو پرسکون نہیں محسوس کر سکا۔

لیکن یہ عمل جیکبسن کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں بھی تبدیلی رونما ہوئی اور خود کو افریقی نسب سے جوڑنے کے بعد نسل پرستی کی سوچ سے آزاد ہو گئی۔

ان 2 واقعات کے بعد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں انسٹی ٹیوٹ آف سوسائٹی اینڈ جینیٹکس کے ڈائریکٹر آرون پینوفسکی اور ہارورڈ کینیڈی اسکول کے ماہر عمرانیات جان ڈونووین نے 639 اسٹارم فرنٹ ڈسکشن پوسٹس کا تجزیہ کیا تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ سفید فام بالادستی پسند کمیونٹیز غیر متوقع ڈی این اے نتائج سے کیسے نمٹتی ہیں۔

انہوں نے مختلف حکمت عملیوں کو تلاش کیا، جس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ  کچھ معاملات میں صارف کو کمیونٹی نے مسترد کر دیا ہے، اور کچھ واقعات میں ان کے ٹیسٹ نے ہی ان کو مسترد کر دیا۔

ایک صارف سے معلوم ہوا کہ اگر آپ سفید فام نیشنلسٹ ہیں تو آپ کو سائنس کی ضرورت ہی نہیں ہے، آپ کو ٹیسٹ کرانا ہی نہیں چاہیے، کبھی کبھی تو مسترد کردینا ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہمیں ان لوگوں کو اپنا ڈی این اے دینا ہی نہیں چاہیے جو سفید فام کمیونٹی کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔

ایک خاتون صارف نے لکھا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا مقصد سفید فام سپریمیسی کو ختم کرنے کے مترادف ہے، میرے ڈی این اے ٹیسٹ میں ثابت ہوا ہے کہ میں 61 فیصد یورپین ہوں اور مجھے فخر ہے۔

جواب میں ایک صارف نے لکھا کہ میں آپ کو ایک گلاس پانی کا پیش کرتا ہوں جس میں 61 فیصد خالص پانی ہوگا، اور باقی سائینائڈ ہوگا، اور سائنائیڈ کے بغیر آپ پانی نہیں پی سکتے ہیں تو آپ 61 فیصد یورپین ہو کر کیسے سفید فام ہونے کا دعوٰی کر سکتے ہیں۔

پینافسکی اور جان ڈونووین نے اسٹارم فرنٹ کے ذریعے اندازہ لگایا کہ اس سروے نے نسل پرست سفید فام لوگوں کو یہ بات سوچنے پر مجبور کر لیا ہے کہ وہ خالص سفید فام ہیں کہ نہیں ہیں۔

آباؤ اجداد کی جانچ کے لیے ڈی این اے کرنے والی کمپنیاں تشہیر کے لیے اشتہارت میں لوگوں کو راغب کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں جیسے کہ آپ ڈی این کرائیں اپنے آباؤ اجداد کا پتا کریں اور اپنی سوچ میں تبدیلی لے کر آئیں وغیرہ وغیرہ۔

ڈی این اے ٹیسٹ آپ کو یہ بتانے میں اچھے ہیں کہ آپ کے رشتہ دار کون ہیں، لیکن جینیاتی طور پر سیاہ یا سفید فام ہونے جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ کارپوریشنز جو کٹس فروخت کرتی ہیں کسی ایک کمپنی کا ٹیسٹ آپ کو بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔

ایک سے زیادہ مختلف ڈی این اے کے نتائج آپ کے دنیا کو دیکھنے کا انداز بدل سکتے ہیں، لیکن وہ آپ کو یہ نہیں بتا سکتے کہ آپ اس میں کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ دنیا آپ کو کس طرح دیکھتی ہے اور آپ اپنے آپ کو کیسے دیکھتے ہیں۔

آج کے معاشرے میں ہماری شناختیں کثیر جہتی ہیں، روبنسٹین ڈیئرن کہتی ہیں کہ ہمیں ہر طرح کی مختلف چیزوں کا انتخاب کرنے کا اختیار ملتا ہے۔ ہم پیچیدہ ہیں، اور یہ ٹھیک ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا ڈی این اے کارڈ کیا کہتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp