کراچی کے سہراب گوٹھ سے ملحقہ الآصف اسکوائر ہزاروں دکانوں اور ہوٹلوں پر مشتمل علاقہ ہے جہاں اہل کراچی افغان کھانوں کا لطف اٹھانے ضرور جاتے ہیں۔
ویسے تو الآصف اسکوائر کا نام آتے ہی ذہن میں افغانی کھانے اور منہ میں پانی آجاتا ہے لیکن ہزاروں دکانوں پر مشتمل اس مقام کے بارے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے کہ یہاں کھانے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو ہم آج آپ کو بتائیں گے بھی اور دکھائیں گے بھی۔
الآصف اسکوائر، جہاں ایک الگ ہی دنیا آباد ہے
اگر آپ اندرون شہر سے الآصف اسکوائر آنا چاہتے ہیں تو لیاری ایکسپریس وے کے زیرو پوائنٹ کے عین بائیں جانب سہراب گوٹھ کا علاقہ الآصف اسکوائر کہلاتا ہے۔ یہاں پہنچتے ہی پہلی نظر رنگ برنگی بسوں اور خوب سجے ہوئے ہوٹلوں پر پڑتی ہے لیکن اس کے پس منظر میں ایک الگ ہی دنیا آباد ہے اور وہاں تک پہنچنے کے لیے چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
جہاں 3 زبانیں بولی جاتی ہیں
ان گلیوں میں داخل ہوتے ہی شہر کے شور شرابے سے دور ہونے کا احساس ہوتا ہے اور افراتفری کے برعکس یہاں ٹھہراؤ دکھائی دیتا ہے، یہاں آباد افغان باشندے عموماً آپس میں فارسی یا پشتو میں بات کرتے ہیں لیکن یہ لوگ اردو سمجھتے اور بولتے بھی ہیں۔
افغانی کھانوں سے افغانی میووں تک
الآصف اسکوائرمیں بیشتر دکانیں میوہ جات کی ہیں مگر یہاں کے ریسٹورنٹس کی بات ہی الگ ہے جہاں خاص طور پر دنبے کے گوشت کی کڑاہی اور تکے کھانے کے لیے آتے ہیں۔ یہاں ہر گلی کے کونے پر افغانی تکے والا موجود ہوتا ہے جبکہ یہاں ملنے والے افغانی نان اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء بھی انتہائی لذیز ہیں، اس کے علاوہ یہاں افغانی لباس، برتن، رومال اور دیگر اشیاء کی دکانیں بھی واقع ہیں۔
40 سال سے آباد افغان مہاجرین پاکستان سے کیوں نہیں جانا چاہتے؟
یہاں بسنے والے افغان تاجر کہتے ہیں کہ وقت ہمارے لیے ایک بار پھر بدل چکا ہے، کچھ افغان شہری جانے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن ہم اس امید پر یہاں رکے ہوئے ہیں کہ پاکستان سے جو محبت ملی ہے وہ ملتی رہے گی اور حکومت اپنے فیصلے پر ضرور غور کرے گی۔
ایک اور تاجر کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستان کے عوام سے بہت پیار ملا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں سے کہیں بھی نہیں جانا چاہتے، اگر حکومت نے فیصلہ نا بدلا تو پھر ہمارے پاس یہاں سے جانے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں بچے گا۔
وہ افغان جنہوں نے افغانستان کبھی دیکھا ہی نہیں
الآصف اسکوائر میں اکثریت ایسے افغان باشندوں کی ہے جو پاکستان میں آئے افغان مہاجرین کی دوسری یا تیسری نسل ہیں، ان میں سے بیشتر کی پیدائش بھی پاکستان میں ہوئی ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اس علاقے کے یو سی چئیرمین دولت خان نے بتایا کہ افغان شہری کئی دہائیوں سے یہاں آباد ہیں، جو غیرقانونی طور پرآئے تھے، انہوں نے کہا کہ ان مہاجرین کے لیے جواقدامات اٹھانا ضروری ہیں اٹھائے جائیں لیکن جو افغان شہری قانونی طور پر یہاں آباد ہیں ان کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ دولت خان نے کہا کہ ہمیں ملک چھوڑنے کے لیے بہت کم وقت دیا گیا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس مدت میں مزید اضافہ کیا جائے۔
ہمیں چند ایسے افغان تاجر بھی ملے جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے افغانستان کبھی دیکھا ہی نہیں اور پاکستان ہی ان کے لیے سب کچھ ہے۔