حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل میں سوشل میڈیا پر پابندی

اتوار 8 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسرائیل میں فلسطینی حریت پسند تنظیم حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن میں 300  سے زائد اسرائیلیوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق غزہ پر اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والوں کی تعداد 480 سے بڑھ گئی ہے جبکہ 1900 سے زیادہ افراد ان کارروائیوں میں زخمی ہوئے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے سخت جوابی کارروائی سے خبردار کیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی فوج نے حماس کے ٹھکانوں پر  نئے حملوں کا اعلان کرتے ہوئے غزہ کے رہائشیوں کو علاقہ خالی کرنے کا کہا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی طیاروں کی بمباری کے بعد کا منظر۔ تصویر بشکریہ: رائٹرز

اسرائیلی حکام نے تصدیق کی ہے کہ حماس کے جنگجوؤں کے راکٹ اور زمینی حملے میں اس کے 200 سے زیادہ افراد ہلاک اور 1100 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں، جب کہ درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا گیاہے، ادھر فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں میں 232 سے زیادہ افراد شہید اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔

ادھر مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اورفلسطین کے مذاحمت کاروں کے درمیان تازہ جھڑپوں کے بعد پیدا ہونے والے صورت حال پر اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جو کل نیویارک میں منعقد ہو گا۔

سلامتی کونسل کے اجلاس کا فیصلہ فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے ہفتے کے روز بڑے پیمانے پر اچانک کیے جانے والے حملے اور اس کے بعد غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد کیا گیا ہے۔

اسرائیل نے غزہ کی بجلی منقطع کر دی، طبی امداد میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، محمد ابو سلمیہ

الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کو بجلی کی فراہمی منقطع کرنے سے یہاں اسپتالوں اور طبی مراکز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ یہ پر ہنگامی حالات میں ڈاکٹرز اور اسپتالوں کا عملہ اسرائیل کی طرف سے جاری فضائی حملے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کے علاج کی کوششیں کر رہے ہیں۔

 الشفا اسپتال محصور علاقے کا سب سے بڑا اسپتال ہے اور یہاں سب سے زیادہ فلسطینیوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں۔

الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ نے کہا کہ ’ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، ہم اس کے ساتھ جو کچھ کر سکتے ہیں کر رہے ہیں، لیکن ہمیں ایک حقیقی خطرے کا سامنا ہے، خاص طور پر یہ کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی بجلی کاٹ دی ہے اور یہاں جنریٹر سے کام کرنے کے لیے روزانہ 48  ہزار لیٹر ایندھن کی ضرورت ہے۔ ابو سلمیہ نے الجزیرہ ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ہم اس طرح یہاں پر کام جاری رکھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

 انہوں نے کہا کہ 200 فلسطینی شہید اور 1600 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں جن میں سے اکثریت کی حالت تشویشناک ہے اور انہیں آئی سی یو میں علاج کی ضرورت ہے اور دیگر کی سرکاری سرجری کرنے کی ضرورت ہے۔

 انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی 17 سال سے اسرائیلی افواج کے سخت محاصرے میں ہے۔ طبی شعبہ اس محاصرے کی سب سے بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ ہمارے پاس طبی سازوسامان کی کمی ہے، یعنی ہنگامی طور پر کمروں اور انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں ان کی شدید ضرورت ہے۔

انہوں نے کہاکہ ’زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جسے پہلے سے ہی مشکلات کا سامنا کرنے والا شعبہ سنبھال نہیں سکتا۔ آج کے واقعات سے پہلے بھی، ہم متنبہ کرتے رہے ہیں کہ طبی سامان خاص طور پر کینسر اور ڈائیلاسز کے لیے مشینری کی بہت شدید قلت ہے۔ابو سلمیہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ دائمی بیماریوں کے مریض ادویات کی عدم موجودگی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے لوگوں کا مقبوضہ مغربی کنارے یا بیرون ملک علاج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہیں اسرائیل کی طرف سے رسائی نہیں دی جا رہی ہے اور نا ہی بیرونی طبی سامان کو غزہ میں داخل ہونے دیا جا رہا ہے۔

فلسطین کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ مقامی وقت کے مطابق شام 4 بج کر 20 منٹ تک حماس اور اسرائیلی افوا ج کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں 240 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد 1610 سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ اسرائیل نے حماس کے حملوں کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کر دی ہے۔

 واضح رہے کہ ہفتے کے روز حماس نے اسرائیل پر تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 40 اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے جب کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں 5000 سے زیادہ راکٹ داغے گئے جس کے نتیجے میں غزہ کی پٹی سے فائر کیے جانے والے راکٹوں کی بوچھاڑ کی آڑ میں ہی حماس کے جنگجو اسرائیلی قصبوں میں داخل ہو گئے تھے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس نے اعلان جنگ کر دیا ہے کیونکہ اس کی فوج نے غزہ کے قریب متعدد اسرائیلی قصبوں اور فوجی اڈوں میں حماس کے جنگجوؤں کے ساتھ لڑائی کی ہے ۔ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے حماس کے حملوں کے جواب میں بڑی کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ ہمارے دشمن (حماس ) کو اس حملے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی جس کا اسے کبھی گمان تک نہیں ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ’ہم حالت جنگ میں ہیں اور ہم اسے جیتیں گے‘۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘صبح سے میگن ڈیوڈ اڈوم (ایم ڈی اے) ایمرجنسی میڈیکل سروسز کا کہنا ہے کہ اس کی مختلف میڈیکل ٹیموں نے سینکڑوں لوگوں کو طبی امداد فراہم کی ہے لیکن اس کے باوجود ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہےان میں سے خاص طور پر 40 افراد کو مردہ قرار دیا جا چکا ہے جبکہ اسرائیلی وزارت صحت نے کم از کم 779 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی اور انہیں اسپتال پہنچانے کی بھی تصدیق کی ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ میں فضائی حملے کیے ہیں جہاں عینی شاہدین نے شدید دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں جس میں  ابتدائی طور پر کم از کم 2 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

اسرائیلی نشریاتی ادارے ریشیٹ 13 ٹی وی نیوز کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں نے اوفاکیم قصبے میں اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور سدروت قصبے میں 5 فلسطینی جنگجو مارے گئے ہیں اور گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ جنوبی اسرائیل کے قصبوں میں فلسطینی جنگجوؤں کے گروہوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ اسرائیلی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ جنوبی اسرائیل میں ایسے ’21 فعال جنگجو’ موجود ہیں جو حملے کی شدت کی نشاندہی کرتے ہیں۔

غزہ میں لوگ آنے والے دنوں کے تنازع کے خدشے کے پیش نظر سامان خریدنے کے لیے دوڑ پڑے۔ کچھ لوگوں نے اپنے گھروں کو خالی کر دیا اور پناہ گاہوں کی طرف روانہ ہو گئے۔

حماس کے فوجی کمانڈر محمد دیف نے حماس کے ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی ایک خبر میں آپریشن کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے فلسطینیوں سے اپیل کی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے بقا کی جنگ کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ یہ فلسطینی زمین پر آخری قبضے کے خاتمے کے لیے سب سے بڑی جنگ ہے،’ انہوں نے تصدیق کی کہ حماس نے 5،000 راکٹ داغے ہیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان آخری بڑی کشیدگی 2021 میں 10 روزہ جنگ تھی۔

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان یہ کشیدگی مغربی کنارے میں اسرائیل اور فلسطینی جنگجوؤں کے درمیان بڑھتے ہوئے تشدد کے پس منظر میں سامنے آئی ہے، جو غزہ کی پٹی کے ساتھ ان علاقوں کا حصہ ہے جہاں فلسطینی طویل عرصے سے ایک ریاست کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ اقدام ایک ایسے وقت میں بھی سامنے آیا ہے جب اسرائیل میں سیاسی ہلچل جاری ہے، جو عدلیہ میں اصلاحات کے اقدامات پر گہری تقسیم کا شکار ہے  اور ایک ایسے وقت میں جب واشنگٹن ایک ایسے معاہدے پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے جس سے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آئیں۔

لبنانی گروپ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی اسرائیل کے مسلسل قبضے کا فیصلہ کن جواب ہے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے خواہاں افراد کے لیے ایک پیغام ہے۔

اسرائیلیوں کو یرغمال بنائے جانے کی اطلاعات

حماس کے ذرائع ابلاغ نے ایسی ویڈیوز دکھائی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی لاشیں جنگجوؤں کی جانب سے غزہ لائی گئی تھیں اور فلسطینی مسلح افراد اسرائیلی گھروں کے اندر پہنچ گئے تھے اور مبینہ طور پر حملہ آور جیپوں میں سوار ہو کر ایک اسرائیلی قصبے کا دورہ کر رہے تھے۔

فلسطینی ذرائع ابلاغ نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ حماس کے جنگجوؤں نے متعدد اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا ہے حماس نے ایک ویڈیو فوٹیج بھی جاری کی ہے جس میں بظاہر تباہ شدہ اسرائیلی ٹینک کو دکھایا گیا ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کو اپنے فوجیوں کے یرغمال بننے کی اطلاعات کا علم ہے تاہم انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ صحافیوں کے ساتھ ایک بریفنگ کے دوران اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

غزہ میں راکٹ داغے جانے کی گونج سنائی دی اور رہائشیوں نے جنوبی قصبے خان یونس کے قریب اسرائیل کے ساتھ باڑ پر مسلح جھڑپوں کی اطلاع دی اور کہا کہ انہوں نے مسلح جنگجوؤں کی نمایاں نقل و حرکت دیکھی ہے۔

اسرائیل کی ایمبولینس سروس کا کہنا ہے کہ ٹیمیں غزہ کے قریب جنوبی اسرائیل کے علاقوں میں روانہ کردی گئی ہیں اور رہائشیوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اندر ہی رہیں۔

فلسطینی اسلامی جہاد گروپ کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجو اس حملے میں حماس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اسلامک جہاد کے مسلح ونگ کے ترجمان ابو حمزہ نے ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں کہاکہ ’ہم اس لڑائی کا حصہ ہیں، ہمارے جنگجو فتح کے حصول تک قسام بریگیڈ میں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑیں گے ۔

غزہ میں فلسطینیوں نے اسرائیل میں دراندازی کا الزام لگایا ہے۔  غزہ کے ایک دکاندار نے کہا کہ مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا ہے، یہ ایک خواب کی طرح ہے۔

یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے 1973 کی جنگ کی 50 ویں سالگرہ منانے کے ایک دن بعد کیا گیا ہے جس نے شام اور مصر کے اچانک حملوں میں اسرائیل کو تباہ کن شکست کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی پر پاکستان کی تشویش

پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ کی تازہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم کو فوری کردار ادار کرنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کو انسانی قیمت پر اسرائیل، فلسطینیوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر شدید تشویش ہے۔

حماس اور اسرائیلی افواج کے درمیان جھڑپوں کے بعد دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ ( یواین) اسلامی تعاون تنظیم(اوآئی سی) کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے حل کا اعادہ کرتا ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ سے مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی کلید کے طور پر 2 ریاستی حل کی مسلسل وکالت کی ہے، پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ریاستِ فلسطین کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔

ترجمان کے مطابق پاکستان اس خود مختار ریاستِ فلسطین کی حمایت کرتا ہے جس کا دارالحکومت ’القدس شریف‘ ہو۔ عالمی برادری شہریوں کے تحفظ، مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے متحد ہو جائے۔

ادھر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا فوری حل ناگزیر ہے۔ مشرق وسطی میں پائیدار امن دو ریاستی حل میں ہی مضمر ہے۔

ادھر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا فوری حل ناگزیر ہے۔ مشرق وسطی میں پائیدار امن دو ریاستی حل میں ہی مضمر ہے۔ مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر دل افسردہ ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی تازہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی صورت حل دُنیا کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ صورت حال کی خرابی کی بنیاد اسرائیلی مظالم اور فلسطینی علاقوں پر اس کا ناجائز قبضہ ہے، موجودہ صورت حال میں اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی ) کو فوری متحرک کیا جائے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے مشرق وسطیٰ کی تازہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری تمام تر ہمدردیاں اور دعائیں فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں۔ فلسطینی عوام طویل عرصے سے ظلم و جبر کا سامنا کر رہے ہیں، عالمی منصف فلسطینی عوام کی حمایت میں آواز بلند کریں۔

سعودی عرب کا تشدد کے فوری خاتمے پر زور

سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نے سعودی وزارت خارجہ کے حوالے سے کہا ہے کہ ہم فلسطینی دھڑوں اور قابض اسرائیلی افواج کے درمیان غیر معمولی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اسرائیلی تسلط پر صورت حال کے خراب ہونے کا بار ہا کہتا رہا ہے۔ سعودی عرب فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرنے سے بھی خبردار کرتا رہا ہے۔

سعودی عرب نے مقدس مقامات کے خلاف منظم اشتعال انگیزیوں سے بھی خبردار کرتا رہا ہے۔ سعودی عرب نے مطالبہ کیا کہ 2 ریاستی حل کو ایسے حاصل کیا جائے جو خطے میں امن لا سکے۔

مصر کا ‘زیادہ سے زیادہ تحمل’ کا مطالبہ

مصر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی جانب سے وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے ‘سنگین نتائج’ برآمد ہوں گے۔ اس بیان میں زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے اور شہریوں کو مزید خطرے میں ڈالنے سے بچنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے خلاف ’پیغام‘ پر حملہ

حزب اللہ نے ہفتے کے روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ غزہ کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کی قیادت کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں۔

غزہ کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ داغے جانے کے واقعات کے بعد بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اسرائیل کے مسلسل قبضے کا فیصلہ کن جواب ہے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے خواہاں افراد کے لیے ایک پیغام ہے۔

مذمتوں کا سلسلہ جاری ہے

عرب لیگ

عرب لیگ کے سربراہ احمد ابوالغیط نے غزہ میں فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے اور دونوں فریقوں کے درمیان مسلح تصادم کے خاتمے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے پرتشدد اور انتہا پسندانہ پالیسیوں پر مسلسل عمل درآمد ایک ٹائم بم ہے جو خطے کو مستقبل قریب میں استحکام کے کسی بھی سنجیدہ موقع سے محروم کر رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات

سرکاری خبر رساں ادارے نے متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کے حوالے سے بتایا کہ متحدہ عرب امارات سنگین نتائج سے بچنے کے لیے فریقین سے زیادہ سے زیادہ تحمل اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا ہے۔

کويت

کویت نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کو اس کے ’صریحاً حملوں‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

ايران

ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے مشیر نے فلسطینی جنگجوؤں کو مبارکباد دی ہے۔ بیان میں یحییٰ رحیم صفوی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہم فلسطین اور یروشلم کی آزادی تک فلسطینی جنگجوؤں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے پارلیمنٹ کے ارکان کو اپنی نشستوں سے اٹھ کر ’اسرائیل مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دکھایا ہے

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں حیرت کا عنصر اور دیگر طریقے استعمال کیے گئے جو فلسطینی عوام کے غاصبوں کے سامنے اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں۔

مصر

مصر کی وزارت خارجہ نے اس کشیدگی کے ’سنگین نتائج‘ کے بارے میں متنبہ کیا اور ’ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے اور شہریوں کو مزید خطرے میں ڈالنے سے بچنے‘  کا مطالبہ کیا ہے۔

ترکی

ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ ہم تمام فریقین سے تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔

قطر

قطر کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف جاری تشدد میں اضافے کا ذمہ دار صرف اسرائیل ہے اور دونوں فریقوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

مراکش

مراکش کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مراکش غزہ کی پٹی میں بگڑتی ہوئی صورتحال اور فوجی کارروائی پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے اور شہریوں کے خلاف حملوں کی مذمت کرتا ہے۔

امریکا

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ ہم اسرائیلی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان حملوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کے لیے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ آنے والے دنوں میں محکمہ دفاع اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع اور شہریوں کو بچانے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ مہیا کی جائے۔

اقوام متحدہ

مشرق وسطیٰ میں امن کے سفیر ٹور وینس لینڈ کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایک خطرناک صورت حال پیدا ہو گئی ہے اور میں سب سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹ جائیں۔’

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ٹورک نے کہاکہ ’ اس حملے کا اسرائیلی شہریوں پر خوفناک اثر پڑ رہا ہے، عام شہریوں کو کبھی بھی حملوں کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔

جرمنی

جرمن چانسلر اولاف شولز نے سوشل میڈیا پر کہا کہ جرمنی حماس کے ان حملوں کی مذمت کرتا ہے اور اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔

فرانس

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے حملوں اور بڑھتی ہو ئی کشیدگی کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’ میں متاثرین، ان کے اہل خانہ اور ان کے قریبی لوگوں کے ساتھ اپنی مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہوں‘۔

کینیڈا

کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا تھا کہ شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ ضروری ہے ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا اسرائیل پر حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔ تشدد کی یہ کارروائیاں مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنے دفاع کے اس کے حق کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہمارے خیالات اس سے متاثر ہونے والے ہر شخص کے ساتھ ہیں۔

برطانیہ

برطانیہ حماس کی جانب سے اسرائیلی شہریوں پر حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا ہے کہ برطانیہ ہمیشہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرے گا۔

یورپی اتحاد

یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیئن نے کہا کہ میں حماس اسرائیل کے خلاف کیے جانے والے حملے کی واضح طور پر مذمت کرتی ہوں۔ یہ اپنی انتہائی گھناؤنی شکل میں بقول ان کے دہشت گردی ہے۔

خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا کہ ہم حماس کے حملوں کی واضح طور پر مذمت کرتے ہیں۔ یہ ہولناک تشدد فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔ دہشت گردی اور تشدد سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

روس

روس کے نائب وزیر خارجہ میخائل بوگدانوف نے کہا ہے کہ روس اسرائیل، فلسطینیوں اور عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے سلسلے میں رابطے میں ہے۔

يوکرين

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اسرائیل پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق پر شک نہیں کیا جا سکتا۔

پولينڈ

پولینڈ کے صدر آندریج ڈوڈا نے کہا کہ پولینڈ تشدد کی تمام کارروائیوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملوں سے صدمے میں ہوں۔

جمہوریہ چیک

جمہوریہ چیک کے صدر پیٹر پاویل نے ایک بیان میں کہا کہ غزہ کی پٹی سے کیا جانے والا حملہ اسرائیلی ریاست اور شہری آبادی کے خلاف حملہ ہے جو قابل مذمت عمل ہے۔

راکٹ حملے اور حماس کے کمانڈوز کی اسرائیل میں دراندازی فلسطینی اسرائیل تنازع کے پرامن حل کی کسی بھی کوشش کو طویل عرصے تک روک دے گی۔

اٹلی

اطالوی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم جارجیا میلونی کی صدارت میں آج اسرائیل میں پیدا ہونے والی ڈرامائی صورتحال پر ایک اجلاس منعقد ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت صورتحال پر تشویش کے ساتھ نظر رکھے ہوئے ہے۔ ملک میں یہودی برادری کی سلامتی پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔

کينيا

کینیا کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ہم ان حملوں کے منصوبہ سازوں، فنڈز فراہم کرنے والوں اور عمل درآمد کرنے والوں کی مذمت کرتے ہیں۔ کینیا کی وزارت خارجہ کے پرنسپل سیکریٹری کوریئر سنگوئی نے کہا کہ اگرچہ اسرائیل کو جوابی کارروائی کا حق حاصل ہے لیکن اس افسوسناک پیش رفت کو حل کرنے کے لیے پرامن راستے پر زور دیا جانا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp