ورلڈ بینک نے گزشتہ ہفتے پاکستان میں 50 ہزار روپے سے کم ماہانہ تنخواہوں پر ٹیکس لگانے کے حوالے سے اپنی سفارش واپس لے لی ہے، کیونکہ تازہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ انتہائی پسماندہ تنخواہ دار طبقے نے ایک بار پھر امیر ترین برآمد کنندگان اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی جانب سے پچھلے ماہ کے دوران ادا کیے گئے مشترکہ ٹیکسوں سے زیادہ ٹیکس ادا کیا ہے۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق، تنخواہ دار افراد نے رواں مالی سال جولائی تا ستمبر کی سہ ماہی کے دوران انکم ٹیکس کی مد میں 70 ارب 60 کروڑ روپے ادا کیے، جو کہ امیر ترین برآمد کنندگان اور بااثر اور غیر منظم ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے مشترکہ ٹیکس ادائیگیوں سے زیادہ ہے۔
پسماندہ تنخواہ دار افراد کے مقابلے میں برآمد کنندگان اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے تاجروں کی دولت اور آمدنی میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ برآمد کنندگان اور ریئل اسٹیٹ پلیئرز کے مشترکہ ٹیکس 3 ماہ میں صرف 65 ارب روپے تھے، جو تنخواہ دار افراد کی جانب سے ادا کیے گئے مجموعی ٹیکس سے تقریباً 6 ارب روپے کم تھے۔
ورلڈ بینک نے اپنی سفارش کیوں واپس لی؟
ورلڈ بینک نے گزشتہ ہفتہ 50 ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدنی کمانے والے شہریوں پر ٹیکس لگانے کی انتہائی متنازعہ سفارش پر اپنی پوزیشن واضح کردی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کے لیے اس کی سفارش 2019 کے اعداد و شمار پر مبنی تھی، جسے حالیہ افراط زر اور لیبر مارکیٹ کے حالات کی روشنی میں اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
ترجمان ورلڈ بینک کے مطابق بینک یقینی طور پر موجودہ برائے نام حد میں کسی قسم کی کمی کی سفارش نہیں کرتا ہے، اور جس طرح اسے فریم کیا گیا وہ یقیناً گمراہ کن تھا۔ 2019 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر پچھلے پبلک اخراجات کے جائزے میں ایک اصلاحات پر مبنی انکم ٹیکس ڈھانچہ میں تنخواہ دار طبقہ کو فراہم کردہ کم سے کم حد ختم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
’۔۔۔ لیکن اس تجزیے کو حالیہ مہنگائی اور لیبر مارکیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کو یقینی بنانے کے لیے اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ کم آمدنی والا طبقہ متاثر نہیں ہو۔‘
مزید پڑھیں
اپنی غلطی کو قبول کرتے ہوئے، ورلڈ بینک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ میں سفارشات کو اس اصلاحات سے آگاہ کرنے کے لیے حالیہ اعداد و شمار پر نئے تجزیے کی ضرورت پر واضح ہونا چاہیے تھا۔
ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ ورلڈ بینک انکم ٹیکس میں چھوٹ کے لیے کسی خاص نئی سطح کی سفارش کے بجائے اس نوعیت کی سطح کا اندازہ لگانے کے لیے ایک تازہ سروے کرنے پر زور دیتا ہے۔ ٹیکس کی حدوں میں مناسب تبدیلیوں کا اندازہ نئے سروے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر اور کم آمدنی والے طبقہ کے تحفظ کے لیے ڈیزائن کیا جانا چاہیے۔
ورلڈ بینک کی نئی سفارشات
ورلڈ بینک کے مطابق اس نے جامع ٹیکس اصلاحات کی سفارش کی ہے جو مجموعی نظام کو آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ بنائے گی، جس سے سب سے زیادہ خوشحال لوگوں پر ٹیکس کا بوجھ بڑھے گا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی گزشتہ حکومت نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکسوں کے بوجھ میں مزید اضافہ کیا تھا، جس کی وجہ سے صرف 3 ماہ میں تنخواہ دار افراد پر ٹیکسوں کی مد میں 17 ارب 70 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑا تھا۔
حکومتی اعداد وشمار کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے رواں مالی سال کے جولائی تا ستمبر کے دوران گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران ادا کیے گئے ٹیکسوں کے مقابلے میں 33 فیصد زیادہ انکم ٹیکس ادا کیا ہے۔
ایف بی آر کے اعدادوشمار
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مرتب کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جولائی تا ستمبر کے دوران تنخواہ دار افراد نے 70 ارب 60 کروڑ روپے ٹیکس ادا کیا۔ ٹھیکیداروں، بینک ڈیپازٹرز اور درآمد کنندگان کے بعد تنخواہ دار لوگ ودہولڈنگ ٹیکس میں چوتھے نمبر پر رہے۔
جون کے بجٹ میں حکومت نے ایک بار پھر ماہانہ 200,000 روپے سے زیادہ کمانے والے تنخواہ دار افراد پر ٹیکس بڑھا دیا تھا۔
رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ایف بی آر نے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں 580 ارب اکٹھے کئے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کل ود ہولڈنگ ٹیکس کا 12.2 فیصد صرف تنخواہ دار طبقے نے ادا کیا، جسے اپنی مجموعی تنخواہ کے خلاف اخراجات کو ایڈجسٹ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 7 ارب ڈالر یا 2 کھرب روپے کمانے والے برآمد کنندگان نے 21 ارب روپے کی معمولی رقم ٹیکس ادا کی۔ ٹیکسوں میں ان کا حصہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ تھا، لیکن یہ روپے کے لحاظ سے ان کی آمدنی میں اضافے سے کم تھا۔
برآمد کنندگان اپنی مجموعی رسیدوں کا صرف 1% انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ رواں مالی سال میں برآمد کنندگان کا انکم ٹیکس کا حصہ 4 فیصد سے کم ہو کر کل ود ہولڈنگ ٹیکس کا صرف 3.6 فیصد رہ گیا ہے۔