حکومت نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو واپس افغانستان جانے کے لیے 31 اکتوبر تک کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے جس کے بعد واپس افغانستان نہ جانے والے پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا جائے گا۔
یہ پناہ گزین کئی سال سے پاکستان میں مختلف قسم کے کاروبار کررہے ہیں جبکہ اسلام آباد سمیت دیگر شہروں کے سستے بازاروں میں افغان پناہ گزین بڑی تعداد میں جوتوں اور کپڑوں کے اسٹالز لگاتے ہیں۔
جب کوئی پوچھے گا تب دیکھا جائے گا
وی نیوز نے سستے بازاروں کا دورہ کیا اور وہاں اسٹالز لگانے والے افغان مہاجرین سے استفسار کیا کہ آیا وہ یکم نومبر سے قبل اپنے کاروبار ختم کرکے واپس افغانستان چلے جائیں گے، جس پر بیشتر افغان باشندوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تو پاکستانی ہیں جبکہ دیگر افغان تاجروں نے کہا کہ پولیس نے انہیں ابھی تک کاروبار ختم کرنے یا پاکستان چھوڑنے کا نہیں کہا، جب پولیس کی جانب سے ایسا کہا جائے گا تب دیکھا جائے گا۔
مزید پڑھیں
ہم تو پاکستانی ہیں
اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن میں واقع شہر کے سب سے بڑے ہفتہ وار بازار میں افغان تاجروں نے لنڈے کے جوتوں اور کپڑوں سمیت مختلف اشیا کے اسٹالز لگائے ہوئے ہیں، اسی بازار میں بہت سے افغان بچے مزدوری بھی کرتے ہیں۔
وی نیوز نے مختلف اسٹالز پر کام کرنے والے افغان باشندوں سے سوال کیا کہ حکومت افغان مہاجرین کی پاکستان سے بے دخلی کا اعلان کرچکی ہے تو کیا وہ اپنا کاروبار ختم کرکے واپس افغانستان جارہے ہیں، جس پر افغان مہاجرین نے کہا کہ وہ افغان مہاجرین نہیں بلکہ پاکستانی ہیں اور ان کے پاس شناختی کارڈ بھی ہے۔
لاکھوں کی سرمایہ کاری
اسلام آباد کے سستے بازار میں اسٹالز لگانے والے افغان تاجروں نے کہا کہ ابھی تک تو پولیس نے انہیں کاروبار ختم کرنے یا پاکستان چھوڑ کر جانے سے متعلق کچھ نہیں کہا، وہ کئی سال سے سستے بازاروں میں اسٹالز لگا رہے ہیں جن پر انہوں نے لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پولیس سستے بازاروں میں آکر ہمیں کاروبار بند کرنے کا کہے گی تو اس وقت دیکھا جائے گا کہ کیا کرنا ہے، فی الوقت تو ہم اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور کسی ریاستی ادارے کی جانب سے ہمیں کاروبار ختم کرنے سے متعلق کوئی ہدایت نہیں کی گئی ہے۔
چھلی ہو یا پلازہ، سب بیچتے ہیں
واضح رہے افغان پناہ گزین اس وقت جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں تقریباً ہر قسم کے کاروبار کر رہے ہیں، گلی محلوں میں ریڑھی پر چھلیاں بیچنے سے لے کر بڑی بڑی گاڑیوں اور پلازوں کی خرید و فروخت تک، افغان تاجر ہر کاروبار میں آگے آگے ہیں، اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں ٹینکرز کے ذریعے گھروں تک پانی فراہم کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی افغان مہاجرین کی ہے۔
جو کمایا یہیں لگایا
جڑواں شہروں میں مختلف کاروبار کرنے والے افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر نہیں جا سکتے، انہوں نے اپنی زندگی میں جتنی بھی کمائی کی اس کی پاکستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، ایک ماہ میں پاکستان چھوڑ کر واپس افغانستان جانا بہت مشکل ہے، حکومت کو چاہیے کہ اگر انہوں نے افغان مہاجرین کو پاکستان سے بے دخل کرنا ہی ہے تو وہ کم سے کم ایک سال تک کا وقت دیں۔