سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر آج ممکنہ طور پر آخری سماعت ہوگی

پیر 9 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ آج ممکنہ طور پر تیسری اور آخری سماعت کرے گا۔  چیف جسٹس گزشتہ سماعت پر 9 اکتوبر کو کیس مکمل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

گزشتہ دو سماعتوں میں 5 درخواست گزاروں کے وکلا اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں، آج بقیہ درخواست گزاروں کے وکلا سمیت اٹارنی جنرل، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے وکلا اپنے دلائل 15 رکنی فل کورٹ کے سامنے پیشں کریں گے۔

تمام فریقین اپنے تحریری جوابات اور دلائل عدالت میں جمع کرا چکے ہیں، وکلا کے دلائل مکمل ہونےکی صورت میں سماعت آج مکمل ہونے کا امکان ہے۔ گزشتہ 2 سماعتوں کی طرح فل کورٹ کی آج کی عدالتی کارروائی بھی پی ٹی وی پر براہ راست نشر کی جائے گی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی فل کورٹ میں شامل ہیں۔

گزشتہ سماعت کے اہم ریمارکس

3 اکتوبر کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب مارشل لا لگے تو بھول جاتے ہیں، ہتھیار پھینک دیتے ہیں، جب پارلیمنٹ کچھ کرے تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔

کمرہ عدالت میں آویزاں سابق چیف جسٹس صاحبان کی تصویروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں اتنی تصویریں لگی ہیں، انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار مدثر حسن جوڑا کے وکیل حسن عرفان سے دریافت کیا کہ آپ کا موقف یہ ہے کہ سپریم کورٹ کوئی فیصلہ کر دے تو اس پر اپیل کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، ازخود اختیارات پر سماج اور وکلا نے بہت تنقید کی ہے، شکر کی قیمت طے کرنے لگ جاتے ہیں، پارلیمنٹ کہتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اختیارات بڑھا رہے ہیں۔

چیف جسٹس بولے؛ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ ہو تو یہ تو ہمارے لیے اچھا ہے لیکن اس سے آپ کس طرح متاثر ہو رہے ہیں، سپریم کورٹ نے کتنے مارشل لا کی توثیق کی ہے، اگر پارلیمنٹ کہتی ہے کہ یہ توثیق غلط ہے تو کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

حسن عرفان نے موقف اختیار کیا کہ اگر ازخود اختیارات فیصلوں پر اپیل کا حق دیں گے تو سپریم کورٹ کے فیصلے ہر چیف جسٹس کے ساتھ بدلتے رہیں گے اور ان میں کوئی یقینی صورتحال نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے کہتے تھے کہ فلاں ڈاکٹرائن ہے کیس لگ ہی نہیں ہو سکتا، میں فرد کا نام نہیں لوں گا، یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ آپ اپنی تاریخ پہ نظر رکھیے آپ نے یکدم پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ حسن عرفان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فرد واحد نے اس ملک کو خراب کیا، اب اگر اس قانون میں اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں اور مشاورت کا کہا گیا ہے تو یہ ہماری مشکل ہے، آپ کو اس سے کیا دقت ہے۔

درخواست گزار نیاز اللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے دلائل کی بنیاد اخباری خبریں ہیں، آپ نے اس سلسلے میں اسپیکر قومی اسمبلی کو کوئی خط لکھا؟ اطلاعات تک رسائی ہمارے آئین کا حصہ ہے لیکن آپ نے اسپیکر قومی اسمبلی سے سوال نہیں کیا۔

’آپ نے اپنا استحقاق استعمال نہیں کیا اور آپ ہمارے سامنے آ گئے، آپ خود کو قوم کا نمائندہ نہ کہیں، نہ آپ قوم کے نمائندے ہیں نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔‘

اکرام چوہدری نے جب سابق وزیراعظم سے متعلق خبر پڑھ کر سنائی تو چیف جسٹس بولے؛ آپ یہ باتیں میڈیا پہ کریں۔ وہ خبریں نہ پڑھیں جن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، عدالت کو سیاسی بحث کے لیے استعمال نہ کریں، میڈیا موجود ہے وہاں جا کر سیاست کریں، قانونی دلائل دیجیے کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کے حق کو صلب کیا۔

اکرام چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس بولے؛ حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بن گیا ہے، آپ یہ بتائیں کہ یہ آئین سے متصادم ہے یا نہیں۔ اکرام چوہدری نے موقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم صرف دو تہائی اکثریت سے ہی کر سکتی ہے، یہ ایکٹ بنیادی طور پر خلاف آئین و قانون اور عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ ہے۔

جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ کا یہ کہنا شاید ٹھیک نہ ہو کہ آئینی ترمیم سے ہوجاتا تو ٹھیک تھا، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے اکیسویں آئینی ترمیم کے معاملے میں اس عدالت نے کہا تھا کہ عدالت جائزہ لے سکتی ہے، آپ بتائیں کہ ہم اس ایکٹ کا کس طرح سے جائزہ لے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اکرام چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ عدالت کی آزادی پر حملہ ہے، یہ بتائیں کہ عدالتی آزادی نایاب ہوتی ہے یا یہ لوگوں کے لیے ہوتی ہے، آپ عدالتی آزادی سے آگے نہیں جا رہے۔ کل اگر پارلیمنٹ کہتی ہے کہ بیواؤں کے مقدمات کو ترجیح دی جائے گی تو یہ خلاف آئین ہو گا یا نہیں۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اگر کل پارلیمنٹ قانون بناتی ہے کہ بیوہ عورتوں کے کیسز کو ترجیح دیں تو کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی، قانون سازی اگر لوگوں کو انصاف دینے کا راستہ ہموار یا دشوار کر رہی ہے تو بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اور سے بھی ہے۔

دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئینی نظائر میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر عدالت کوئی ایسا قانون بنانے کی کوشش کرتی ہے جو اس کے اختیارات سے ماوراء ہے تو یہ آئین کے ساتھ فراڈ ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے اکرام چوہدری سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ آئین سازی کے اختیارات کیا ہیں اور یہ ایکٹ کس طرح خلافِ آئین ہے۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا مقصد انصاف تک رسائی ہے، جس میں اپیل کا حق دیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ کہ انصاف تک رسائی کیسے آئین کے خلاف ہے، جس پر اکرام چوہدری بولے؛ پارلیمنٹ نے وہ کام کیا جو اس کے اختیار میں نہیں تھا باقی گزارشات تحریری طور پر پیش کروں گا۔

چیف جسٹس کے اہم ریمارکس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا آرٹیکل 184/3 کا اختیار غیر معمولی ہے، جس کا اختیار کسی اور ملک میں نہیں، اگر سپریم کورٹ کو غیر معمولی اختیار دیا جاسکتا ہے تو کیا واپس نہیں ہوسکتا، پہلے بھی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کو اختیارات دیے اب اگر اس کو بدل رہے ہیں تو کیا مسئلہ ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا زیادہ دماغ مل کر سوچیں تو بہتر ہوگا یا پھر صرف ایک چیف جسٹس فیصلے کرے، موجودہ ایکٹ سے چیف جسٹس کے اختیارات کیسے کم ہورہے یہ سمجھائیں، جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ آرٹیکل 184 تین کا اختیار پہلے سے موجود ہے اس میں صرف ایک اپیل کا حل دیا گیا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا موقف تھا کہ اپیل کا حق ایک بنیادی حق ہے جس کو باقاعدہ قانون سازی سے دیا جانا چاہیے۔ عام قانون سازی سے یہ حق نہیں دیا جا سکتا، کیا اس سے پہلے پارلیمنٹ اکثریت سے ترمیم نہیں کر سکتی تھی۔ اس وقت پر یہ قانون سازی کرنا کیوں ضروری تھی؟

جس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ اس سوال کو ماضی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا موقف تھا کہ آرٹیکل 191 کو پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار کی شق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، اگر سپریم کورٹ کے کوئی رولز نہ ہوتے تو آرٹیکل 191 کو کیسے دیکھا جاتا، سپریم کورٹ اپنے قوانین نہ بناتی تو کیا قانون سازی کے ذریعے نہیں بنائے جا سکتے تھے۔

تحریک انصاف کے وکیل عزیز بھنڈاری سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آرٹیکل 6 کے تحت غداری کی سزا کی میعاد عدالت پہ چھوڑی گئی ہے لیکن اس میں اپیل کا حق ہے، کیا آپ کہتے ہیں کہ اپیل کا حق غیر آئینی ہے؟ توہین عدالت میں اپیل کا حق دے دیا گیا ہے، اگر اپیل دے دی گئی تو کیا قیامت آ گئی؟

’اب آپ ایک سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں، آپ نے یہ باتیں پارلیمنٹ میں نہیں کیں یہاں عدالت میں آگئے، ہو سکتا ہے آپ پارلیمنٹ میں یہی خوبصورت دلائل دیتے تو آپ کی بات مان لی جاتی۔‘

چیف جسٹس بولے؛ فرض کریں میں غصے میں فیصلہ دے دوں کہ مسٹر بھنڈاری عدالت کا وقت ضائع کرتے ہیں ان پر تمام عدالتوں میں پیش ہونے پر پابندی لگا دی جائے، آپ کہاں اپیل کر پائیں گے، ازخود اختیارات فیصلوں کے خلاف اپیل کے خلاف اگر اپیل کا حق دیا گیا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔

’یہ تو چیف جسٹس کو مطلق العنان بنانے کی بات ہے، آپ پارلیمنٹ کے خلاف چلے جاتے ہیں، سپریم کورٹ چیف جسٹس کی مطلق العنانی پر بات نہیں کرتے، آپ بتا دیں کہ دنیا میں کہاں ایسا ہے کہ ایک عدالت نے فیصلہ دے دیا اور اس کے خلاف کہیں فیصلہ نہیں ہو سکتا، یہ ٹھیک ہے تو پھر باقی عدالتیں بند کر دیتے ہیں کہ سپریم کورٹ ہی آخری فیصلہ کرے، وقت بھی بچے گا۔‘

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا سپریم کورٹ ازخود اختیارات فیصلہ کے خلاف اپیل دے سکتی ہے ؟ عزیر بھنڈاری بولے؛ نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تو پھر سوال یہ ہے کہ یہ قانون نہ ہوتا تو اپیل کا حق کیسے مل سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے عزیز بھنڈاری سے استفسار کیا کہ اپیل کے حق سے تحریک انصاف کو کیا فائدہ یا نقصان ہو رہا ہے، جس پر انہوں نےعدالت کو بتایا کہ کوئی فائدہ یا نقصان نہیں۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ایک مثال دے دیں کہ دنیا کی کسی عدالت میں سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہے۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp