سنہ 1979 میں سوویت یونین جنگ کے بعد افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرکے پاکستان آئی اور اس وقت حکومتِ پاکستان نے افغان مہاجرین کے مسائل کو دیکھنے کے لیے ایک ادارے کی بنیاد رکھی جسے افغان کمشنریٹ کہا جاتا ہے۔
ایک چیف کمشنریٹ آفس اسلام آباد جبکہ کمشنریٹ دفاتر صوبوں میں قائم کیے گئے۔ افغان کمشنریٹ وزارتِ سرحدی امور کے تحت کام کرتے ہیں اور افغان مہاجرین کی تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات کے حوالے سے خدمت سرانجام دیتے ہیں۔
60 سے 70 فیصد افغان مہاجرین کیمپوں کے بجائے شہری علاقوں میں مقیم ہیں
کمشنر افغان مہاجرین عباس خان نے افغان مہاجرین کے حوالے سے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سنہ 1995 تک افغان کمشنریٹ کا دائرہ کار افغان مہاجرین کے کیمپوں تک محدود تھا کیونکہ اس وقت تک سارے افغان مہاجرین ان کیمپوں تک محدود تھے لیکن اس کے بعد یہ مختلف شہری علاقوں میں پھیل گئے۔
عباس خان نے بتایا کہ اس وقت 60 سے 70 فیصد افغان مہاجرین پاکستان کے شہری علاقوں میں مقیم ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں افغان کمشنریٹ نے وزارت سرحدی امور کی منظوری سے اربن ریفیوجی پالیسی بنائی ہے اور اس وقت افغان مہاجرین ملک میں جہاں جہاں بھی مقیم ہیں ان کا سارا اختیار وزارت سرحدی امور کے پاس ہے۔
غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کی وطن واپسی ان کے لیے بھی اہم ہے
عباس خان نے کہا کہ افغان حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کی واپسی ان کے لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس سے قانونی طور پر مقیم مہاجرین کو تکلیف نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم افغانوں کو اپنا بھائی مانتے ہیں اور غیر قانونی مقیم افغان اگر اپنے ملک سے شناختی دستاویزات کے ساتھ آئیں گے تو یہ ان کے لیے بھی اچھا ہوگا۔
پاکستان میں رہنے والے سب افغان ’پناہ گزین‘ نہیں ہیں
کمشنر عباس خان نے بتایا کہ پاکستان میں رہنے والے تمام افغان، پناہ گزین نہیں ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومتِ پاکستان افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھجوا رہی بلکہ یہ صرف ان لوگوں کو واپس بھجوا رہا ہے جن کے پاس یہاں رہنے کی کوئی وجہ نہیں اور جو غیر قانونی طور پر مقیم ہیں جن کے پاس کوئی کاغذ یا شناختی دستاویزات نہیں یا اگر شناختی دستاویزات ہیں تو وہ جعلی ہیں اور انہیں صرف اس لیے واپس بھجوایا جارہا ہے کہ وہ واپس اپنے ملک جائیں اور پاسپورٹ بنائیں، ویزا لگوائیں اور اچھے طریقے سے پاکستان آئیں۔
جرائم میں ملوث افغان مہاجرین کی تعداد 2 فیصد سے بھی کم ہے
عباس خان کا کہنا تھا کہ ہر افغان ریفیوجی نہیں ہے لیکن جب بھی کوئی افغان جرم کرتا ہے تو اس کا الزام پناہ گزین پر آ جاتا ہے اور ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ جرائم کی شرح افغان مہاجرین کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں افغان پناہ گزین اور غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں میں تفریق کرنے کی ضرورت ہے اور جب آپ کے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی طور پر مقیم ایسے افراد ہوں گے جن کی کوئی شناخت نہیں تو اس سے نہ صرف اس ملک کے شہری بلکہ قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین بھی متاثر ہوں گے۔
مزید پڑھیں
ایک مہینے کی ڈیڈ لائن
عباس خان نے بتایا کہ غیر قانونی طور پر مقیم بہت سے افغان بہت آسانی کے ساتھ واپس جا سکتے ہیں اور ایک مہینے کی جو ڈیڈ لائن دی گئی ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں کی کچھ مجبوریاں ہیں یعنی یہاں کاروبار ہیں، شادیاں کی ہوئی ہیں، کوئی علاج و معالجے کے لیے مقیم ہیں، وہ کمشنریٹ سے رابطہ کریں تاکہ وزارت سرحدی امور انہیں سہولت دے۔
’افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے کوئی قانون ہے ہی نہیں‘
کمشنر عباس خان نے بتایا کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان میں کوئی قانون ہے ہی نہیں۔ ہمارے پاس صرف کچھ ہدایات ہوتی ہیں جن کے تحت ہم ان کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ پاکستان سنہ 1967 کے اقوام متحدہ کے مہاجرین کنوینشن کا حصہ نہیں اور اس کی وجوہات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مہاجرین کے حوالے سے کوئی قانون نہیں۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر تعلیم صحت کے قوانین میں پاکستانی شہریوں کے بارے میں مذکور ہے کہ کس صوبے کا کتنا کوٹہ ہے لیکن وہاں افغان مہاجرین کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 70 فیصد افغان مہاجرین کی عمریں 30 سال سے کم ہیں اور ان کے مطالبات حقیقت پر مبنی ہیں کیونکہ وہ خود انحصاری چاہتے ہیں، انہیں تعلیم دینی ہے، ہنر سکھانا ہے اور ان کو صحت کی سہولیات دینی ہیں۔
پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان مہاجرین کے بچوں کی شہریت
عباس خان نے کہا کہ جو افغان پاکستان میں پیدا ہو کر جوان ہو گئے ان کی شہریت کے حوالے سے پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا چاہیے۔
افغانوں کا اپنا پرچم لہرانا ہمیں بُرا لگتا ہے
عباس خان نے کہا کہ افغان اپنی قومی شناخت پر بہت فخر کرتے ہیں اور بعض دفعہ کرکٹ میچوں کے دوران وہ اپنے پرچم اٹھا کے پھرتے ہیں جو ہمیں نہ جانے بُرا کیوں لگتا ہے۔ لیکن افغانستان کی نئی نسل کی اپنے ملک سے بہت زیادہ وابستگی ہے۔ وہ پاکستان کی شہریت نہیں چاہتے صرف پاکستان میں قانونی طور پر عزت کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا قانون افغان مہاجرین کے کاروبار کرنے پر خاموش ہے
عباس خان نے کہا کہ افغان مہاجرین زیادہ تر غیر روایتی کاروبارکرتے ہیں کیونکہ پاکستان کا قانون نہ تو یہ کہتا ہے کہ افغان مہاجرین کاروبار کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ کہتا ہے کہ وہ کاروبار نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں قانون خاموش ہے اس لیے ہمارے ادارے ان کو شک کا فائدہ دیتے ہیں۔
تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے افغان کمشنریٹ کی کارکردگی
اس سوال کے جواب میں کمشنر عباس خان نے کہا کہ افغان مہاجرین کے 80 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں لیکن اس سلسلے میں ہماری کچھ مجبوریاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد آسٹریلیا کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے تو پھر ہم افغان مہاجرین کے بچوں کا کس طرح خیال کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ادارے اس سلسلے میں ہماری بہت کم امداد کرتے ہیں اور ہم ان کو کہہ رہے ہیں کہ اتنی امداد سے ہم ان کو معیاری تعلیم نہیں دے سکتے تو جب ہم ان کو تعلیم نہیں دے پاتے تو یہ بھیک مانگتے ہیں، جوتے پالش کرتے ہیں، جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم بین الاقوامی اداروں سے کہہ رہے ہیں کہ ان کو اپنے ملک میں امداد دیں۔
افغان پاکستان کے بارے میں منفی باتیں کیوں کرتے ہیں؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے کمشنر عباس خان نے کہا کہ گزشتہ 45 سال سے ہمارے حالات زیادہ اچھے نہیں رہے اور اب بھی معاشی بحران چل رہا ہے لیکن ہم نے اس کا اثر کبھی اپنی مہمان نوازی پرنہیں پڑنے دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ منفی تاثرات کے حوالے ایک تو ذمے داری ہمارے اداروں کی ہے جنہوں نے اپنا فرض احسن طریقے سے نہیں نبھایا لیکن اس میں بھی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس مہاجرین کے حوالے سے کوئی پالیسی ہی نہیں ہوگی تو ادارے کیا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ یہ جو شکایتیں کرتے ہیں یہ افغان مہاجرین نہیں ہیں۔ ایسے افغان مہاجرین جن کے پاس پروف آف رجسٹریشن کارڈ یا پی او آر کارڈ ہیں ان کی تعداد 14 لاکھ ہے، وہ بھی شکایتیں کرتے ہیں کہ تعلیم میں ہمارا کوٹہ کم ہے اور ہمیں اس طرح سے روزگار نہیں مل رہا لیکن منفی باتیں اور گلے کرنے والے وہ لوگ ہیں جو افغانستان میں رہتے ہیں اور افغانستان کی پچھلی حکومتوں اور وہاں کے میڈیا خصوصا بھارتی میڈیا کے زیراثر جو ایک منفی مہم چلی اس لیے وہ پاکستان کے بارے میں منفی باتیں کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ افغان جو غیر قانونی طور پہ پاکستان میں مقیم ہیں اور ہم ان کو سہولیات نہیں دے سکتے وہ پاکستان کے بارے میں منفی باتیں کرتے ہیں۔ ان کے پاس اگر شناختی دستاویزات نہیں ہوں گے تو ہم کس طرح ان کو سہولیات دیں گے لہٰذا نتیجتاً پھر وہ ناراض ہو کر اس طرح کی باتیں کرتے ہیں لیکن مہاجرین کبھی بھی اس طرح کی باتیں نہیں کرتے۔
افغان مہاجرین کی سامان اور ڈالر کی اسمگلنگ
اس بارے میں بات کرتے ہوئے عباس خان نے بتایا کہ افغان مہاجرین کی غالب اکثریت اسمگلنگ میں ملوث نہیں لیکن جو لوگ غیر قانونی طور پر بارڈر پار کر کے آتے ہیں وہ یقیناً اس اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے بارڈر مینجمنٹ ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ کون آرہا ہے، کون جارہا ہے کیا لے کر آرہا ہے اور یہاں سے کیا لے کر جارہا ہے۔ غیر قانونی طور پہ مقیم افغانوں کو ان کے ملک واپس بھیجنا بارڈر مینجمنٹ کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کا حصہ ہے۔
پاکستان کے شناختی دستاویزات رکھنے والے افغانوں کی شناخت کیوں کر ممکن ہے؟
کمشنر عباس خان نے کہا کہ ہمارے پاس تمام پی او آر کے حامل افراد کا مکمل ڈیٹا اور بایومیٹرکس ہیں جن کی تعداد 14 لاکھ ہے۔ لیکن جن پناہ گزینوں نے پاکستان کی شناختی دستاویزات حاصل کی ہوئی ہیں وہ ہمارے ڈیٹا میں نہیں ہیں اور یہ وزارت داخلہ اور نادرا کا کام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ہر ضلعے میں کمیٹی ہے جس میں اسپیشل برانچ اور کمشنریٹ کے لوگ ہوتے ہیں ار جب بھی کوئی شکایت آتی ہے کہ فلاں افغان نے جعلی شناختی دستاویزات بنوائے ہوئے ہیں تو وہ کمیٹی اس شکایت کا جائزہ لیتی ہے۔
حاضر سروس جرنیل کی تقرری کیا مہاجرین کی چھانٹی کے لیے ہے؟
اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے عباس خان نے بتایا کہ ہر ملک میں مستقل بنیادوں پر یہ کام چلتا رہتا ہے اور یہ ایک معمول کی بات ہے اور یہ کرنا ضروری ہے تاکہ دیکھا جائے کہ کون قانونی اور کون غیر قانونی طور پر مقیم ہے۔
’دنیا کو افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کی ضرورت ہے‘
عباس خان نے کہا کہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق افغانستان میں مکمل امن قائم ہو چکا ہے اور ان کی معشت بھی مستحکم ہے۔ افغان کرنسی سال 2023 کی سب سے اچھی کارکردگی والی کرنسی ہے تو ہمیں یہ چاہیے کہ ہم افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل کو جاری رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا اگر طالبان حکومت کو تسلیم نہیں بھی کرتی تو پاکستان کو ان کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری رکھنا چاہیے کیونکہ ان کی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان میں آباد ہے اور افغانستان میں استحکام پاکستان کے لیے ضروری ہے اور افغانستان پاکستان کے لیے وسط ایشیائی ریاستوں کا دروازہ ہے۔
بین الاقوامی برادری افغانوں کو افغانستان میں امداد کیوں نہیں دے سکتی؟
عباس خان نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ ان کو ان کے گھر میں امداد دیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ جب وہ ملک سے باہر نکل کر پناہ گزین بن جائیں تب ہی ان کی امداد کی جائے۔
ایران کا افغان پناہ گزینوں کے ساتھ سلوک
عباس خان نے کہا کہ جس طرح سے ایران نے افغان پناہ گزینوں کو کیمپوں تک محدود رکھا ہوا ہے اور ان کے مختلف علاقوں میں جانے پر پابندیاں لگائی ہیں اس سے افغان پناہ گزین خوش نہیں ہیں جبکہ پاکستان نے جس طرح سے افغان مہاجرین کی امداد کر کے اپنی بین الاقوامی ذمے داریوں کو پورا کیا ہے وہ قابلِ فخر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان مہاجرین کو اپنا بھائی سمجھا ہے اور ان کے ساتھ اپنی تمام سہولیات بانٹی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی سپورٹ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔