ناکامی کے منہ سے جیت چھین کر لانے والے کو عبداللہ شفیق کہتے ہیں۔ ہار کے جیتنے والے کو عبداللہ شفیق کہتے ہیں۔ 345 کے ہدف کو معمولی بنانے والے کو عبداللہ شفیق کہتے ہیں۔
حُسنِ عبداللہ کی تعریف ممکن نہیں!
اسکور دیکھا تو میں دیکھتی رہ گئی
ایسا دونوں اننگز میں ہوا۔ جب پاکستان نے بولنگ کرائی اور جب پاکستان نے بیٹنگ کی۔ پاکستان کی جب بیٹنگ چلے تو پریشانی ہوتی ہے۔ نا چلے تو حوصلہ رہتا ہے کہ تم بھی موسم کی طرح بدلے نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جب آپ صبح اٹھتے ہیں اور آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ گیس ہے نہ پانی اور نہ بجلی۔ اگر ان میں سے کوئی چیز آرہی ہو تو اپنے آپ کو تھپڑ مار کر دیکھنا پڑتا ہے کہ کیا میں زندہ ہوں؟ اور آج مجھے خود کو تھپڑ مارنا پڑا۔ ہم بیٹنگ کرنے پر آئے تو کرکٹ ورلڈ کپ میں اپنی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف ہی پورا کرگئے!
شروع میں ہمارے کھلاڑیوں نے جہاں جہاں شاٹ ماری، وہاں وہاں فیلڈر کھڑا ملا۔ یہ تو سراسر گیند کی غلطی تھی۔ وہ کہیں اور جاسکتی تھی لیکن یہ اس کی مرضی تھی۔ اس مرضی میں جب عبداللہ کی مرضی شامل ہوئی تو وہ پارٹنرشپ بنی جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ عبداللہ کی سینچری تو ہوئی لیکن اِس سے پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ ان کا پہلا ورلڈ کپ ہے اور وہ بھی بھارت میں۔ انہیں بھیجا بھی فخر کی جگہ تھا اور یہ ان کی پہلی سینچری تھی۔
رضوان کے بارے میں کیا کہوں۔ وہ خاموشی سے آتے ہیں اور کسی کو بھی پتا لگے بغیر نصف سینچری کرجاتے ہیں۔ اس بار تو وہ سینچری ہی کرگئے۔ وہ کھڑے رہتے ہیں ہمیں اسی پر ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ جس طرح رضوان ساتھ نبھاتا ہے، ایسا ہمسفر ہر انسان کو ملے۔ سعود شکیل نے بھی آخر تک ساتھ نبھایا۔
لیکن میں ادھر آپ کی توجہ دلاتی چلوں کہ بابر اعظم اور امام کوشش کرکے آؤٹ ہوئے تھے۔ وہ جب چاہتے ہیں، آؤٹ ہوتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ٹائمنگ۔ امام کی مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے۔ کیچ نہیں لینا چاہتے، رنز نہیں بنانا چاہتے۔ وہ بس ٹیم میں خاموشی سے رہنا چاہتے ہیں۔ اتنا بے ضرر انسان آپ نے کبھی دیکھا ہے؟
اب آجائیں بولنگ کی طرف۔ پھرتا رہوں دَر بدر، ملتا نہیں وکٹ کا نشان۔ ’دنیا کا بہترین بولنگ اٹیک‘ سے ’ابھی موڈ نہیں ہے کل آنا‘ تک کا سفر ہماری ٹیم نے سری لنکا کے خلاف کچھ گھنٹوں میں ہی طے کرلیا۔ کسی زمانے میں اپوزیشن کو 150 رنز پر ہی ڈھیر کردیا کرتے تھے اور اب سری لنکا کو 350 سے نیچے رہنے پر ’مجبور‘ کرنے پر ہم نے اپنے آپ کو تھپکی دی کہ سری لنکا 500 بھی کرسکتا تھا !
یہ ہماری قومی ٹیم ہی ہے جو شاید ہزار رنز پر کسی ٹیم کو محدود کرلے اور اس پر مبارک باد کی مستحق بھی ہو۔ جی ہاں، روز بولنگ کا دن نہیں ہوتا۔ کبھی موڈ نہیں ہوتا، کبھی ہمت نہیں ہوتی۔ کبھی پچ نہیں ہوتی، کبھی قسمت نہیں ہوتی اور کبھی بریانی میں صحیح بوٹی نہیں ہوتی۔ وجہ کچھ بھی ہو، مان لیں کہ بولنگ روز نہیں ہوتی۔
آخر میں یہ کہوں گی کہ اگر بولنگ کا دن نہیں ہوتا تو کبھی کبھی فیلڈنگ کا بھی دن نہیں ہوتا۔ ہم نے کیچ ایسے چھوڑے جیسے ہم بھی سری لنکا کی طرف سے ہی کھیل رہے تھے۔ کہیں فیلڈر نہیں تھے اور جہاں تھے وہاں کیچ چھوڑ دیے۔
فیلڈر کا نہ ہونا زیادہ بہتر تھا کیونکہ جتنی دفعہ ہمارا کوئی کھلاڑی گر کر بال روکنے لگتا تھا، یا تو بال رکتی نہیں تھی یا پھر کھلاڑی کو فوراً کہیں نا کہیں کوئی چیز لگ جاتی تھی۔ کبھی ٹانگ سہلا رہے ہیں، کبھی گھٹنا، کبھی بازو تو کبھی ہاتھ۔
میرے مطابق میچ جب ایک بار ناسازگار حالات میں چلا جائے اور آپ کچھ کر بھی نہ پائیں تو چھلانگیں لگانا چھوڑ دینی چاہئیں۔ کیا ساری عمر کے لیے چوٹ لگوانی ہے؟ بس میری ایک درخواست ہے کہ لیٹیں مت، پلیز۔