سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قانونی قرار، ایکٹ کا اطلاق ماضی میں دیے گئے فیصلوں پر نہیں ہوگا

بدھ 11 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے کثرت رائے سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دے دیا۔

فیصلہ بدھ کو مقدمے کی 5 ویں سماعت کے بعد سنایا گیا تاہم تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس شاہد وحید ان 5 ججوں میں شامل تھے جنہوں نے ایکٹ کو قانونی قرار دینے کے فیصلے کی مخالفت کی اور اپنے اختلافی نوٹ دیے۔

واضح رہے کہ مذکورہ فیصلہ مؤثر بہ ماضی نہیں لہٰذا اس کا اطلاق گزشتہ عدالتی فیصلوں پر نہیں ہوگا کیوں کہ ماضی میں دیے گئے فیصلوں پر اپیل کا حق دینے والی ایکٹ کی شق کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندو خیل نے اپیل کا حق ماضی سے دینے کی حمایت کی تاہم اکثریتی ججز نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 14,20,22,28 میں دیے گئے حقوق قانون سے مشروط ہیں، جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں فل کورٹ کی جانب سے اب تک اس کیس کی 4 سماعتوں میں دیگر درخواست گزاروں سمیت مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کے وکلا کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حق میں دلائل مکمل کیے جاچکے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر بولے؛ پارلیمنٹ نے اگر 1973 کے بعد سے آرٹیکل 191 کے تحت کچھ نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے پارلیمنٹ نے تسلیم کیا آرٹیکل 191 مزید قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 191 میں ’لا‘ کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا ہے۔

اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے، آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمنٹ سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا۔

اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 191 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے پابندی نہیں لگاتا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 191 میں صرف لا کا لفظ نہیں، یہ ’سبجیکٹ ٹو لا‘  لکھا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں لفظ ’لا‘ 2 سو سے زائد مرتبہ آیا ہے، آپ کہہ رہے ہیں جہاں بھی یہ لفظ لکھا وہ ایک تناظر میں دیکھا جائے گا، یہ ‘ون سائز فٹس آل’ والا معاملہ نہیں ہے، جہاں بھی یہ لفظ لکھا ہے اس کی نوعیت الگ ہے۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191میں پھر ’سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹوشن اینڈ لا‘ کیوں ہے، یہ پھر صرف سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹیوشن کیوں نہیں رکھا گیا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عمومی حالات میں صوبے وفاق سے متعلقہ امور پر قانون سازی نہیں کر سکتے، معاملہ اگر صوبے کے عوام کے حقوق اور ہائی کورٹ کا ہو تو کیا ہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ آرٹیکل 175 میں واضح ہے کہ ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد قانون میں مقرر ہوگی، آرٹیکل 191 میں کہیں نہیں لکھا کہ قانون بنے گا اور اسکے تحت رولز بنیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لا کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا ہے، پارلیمنٹ نے آئین کو جاندار کتاب کے طور پر بنایا کہ جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے۔

جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ آئین ساز یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز تب تک بنائے جب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو جاتی، آئین سازوں کی نیت سے کہیں واضح نہیں ہے کہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز بدلے جاسکتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے بھی قانون ہونگے۔ عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عملدرآمد ضروری ہے۔ اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے اپنی پوری بحث کسی اور نکتے پر شروع کی ہے۔

چیف جسٹس کی اٹارنی جنرل کو ہدایت کہ کہ وہ اگر ہاں اور نہ میں جواب دیں تو بہتر ہے، یہاں معاملہ بھی تو تھوڑا ٹھنڈا رکھنا ہے، آپ اگر اپنے دلائل مرکوز رکھتے تو اتنی بحث نہ چھڑتی۔

جسٹس یحیی آفریدی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ میں پارلیمنٹ کا مسئلہ ازخود نوٹس یا آرٹیکل 184 تھری سے متعلق طریقہ کار بنانا تھا، پارلیمنٹ نے ایکٹ میں ازخودنوٹس سے نکل کر ہر طرح کے کیس کے لیے ججز کمیٹی بنا دی، ایک دم سے ساری چیزیں اوپر نیچے کرنا پارلیمنٹ کے لیے ٹھیک نہیں تھا۔

جسٹس یحیی آفریدی کے مطابق پارلیمنٹ کے اختیار استعمال کرنے کا بھی کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے تھا، اگر غلطیاں سپریم کورٹ میں ہیں تو پارلیمنٹ کی بھی ہیں، جو مسئلہ تھا پارلیمنٹ اس کو ٹھیک کرتی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا کہ عدالت وفاقی حکومت کا جواب چاہتی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر پر عملدرآمد لازمی ہے یا نہیں، جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر عملدرآمد لازمی ہے، ججز کے حلف میں لکھا ہے کہ قانون کے پابند ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پارلیمان نے سپریم کورٹ کی عزت کی اور رکھی، آج ہی اگر ہر چیز کا جواب دے دیں گے تو کل کو یہی کیسز آ گئے تو ہم ان آبزرویشنز کے پابند ہوں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اگر ججزسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر پرعمل نہیں کریں گے تو کیا اپنے حلف کی خلاف ورزی کریں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ پارلیمنٹ سے منفی چیزیں کیوں منسوب کی جائیں، اداروں کو نہ لڑائیں میں تو کہوں گا جیو اور جینے دو، ہمیں اداروں کی عزت رکھنی چاہیے، پارلیمنٹ ایک قدم آگے جا سکتی تھی لیکن نہیں گئی، پارلیمنٹ کو ہم پراعتماد تھا کہ ہم کریں گے۔ آپ آئین پر فوکس رکھیں۔

عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ اگر ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ کے رولز قانون ہیں تو سپریم کورٹ کے کیوں نہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رولز قانون ہوتے ہیں لیکن یہ آرٹیکل 191 میں استعمال شدہ لفظ قانون نہیں کہلائیں گے۔

جسٹس منیب اختر بولے؛ اس حساب سے تو سپریم کورٹ 1980 میں کہہ سکتی تھی کہ کوئی قانون نہیں ہے تو ہم رولز نہیں بنا سکتے، دوسری جانب جسٹس عائشہ ملک بولیں؛ آپ کے مطابق رولز عام طور پر قانون ہوتے ہیں تو عدالت لفظ قانون کی تشریح کس اصول پر کرے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا سپریم کورٹ رولز بننے کے بعد آرٹیکل 191 میں موجود لفظ قانون غیرموثر ہوگیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ موجودہ کیس آرٹیکل 191 کا ہے تو تشریح اُس کے تناظر میں ہی ہوگی۔

جسٹس منصورعلی شاہ کا موقف تھا کہ قانون کی جتنی مرضی اقسام ہوں ایکٹ آف پارلیمنٹ آ گیا تو بات ختم، تاہم جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اگر رولز بھی قانون ہیں اور ایکٹ آف پارلیمنٹ بھی تو کیا یہ دو قوانین میں ٹکراؤ نہیں ہوگا۔ جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ اگر پارلیمنٹ یہ قانون بنائے کہ جیل اپیلیں دائر ہوتے ہی مقرر ہونگی تو یہ سپریم کورٹ رولز سے بالا ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین پر عملدرآمد کے لیے ہی رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز بننے کے بعد ایکٹ آف پارلیمنٹ کا راستہ روکا نہیں جا سکتا، جسٹس مظاہر نقوی بولے؛ اگر سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی اتھارٹی نہیں دینا تھی تو آرٹیکل 191 کا مقصد ہی کیا ہے۔

جسٹس یحیی آفریدی بولے؛ قانون سازی کا اصل مقصد آرٹیکل 184 تھری تھا، جو مسئلہ تھا اسے ٹھیک کرتے پورے سسٹم کو کیوں اوپر نیچے کردیا، سپریم کورٹ پورا ادارہ اور ٹائی ٹینک ہے ایک دم کیسے ادھر اُدھر کیسے موڑا جا سکتا ہے، غلطیاں اگر عدالت سے ہوئی ہیں تو پارلیمنٹ اپنی طرف بھی دیکھے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کی روایات بھی آئین میں تسلیم شدہ ہیں، جس پر جسٹس منیب اختر بولے؛ آئینی روایات ہر اُس ملک میں تسلیم شدہ ہیں جہاں تحریری آئین بھی موجود ہے، آئینی اور قانونی روایات میں تضاد ہو تو آئینی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ وہ آرٹیکل 189 کے تحت کسی صورت روایات ماننے کے پابند نہیں ہیں، ماسٹر آف روسٹر کا لفظ دنیا میں سب سے پہلے کہاں استعمال ہوا، کیا انگلستان یا امریکہ میں ماسٹر آف روسٹر کا لفظ استعمال ہوتا ہے یا ہماری ایجاد ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ ماسٹر کا لفظ ہم اسکول میں سنتے تھے، چیف جسٹس  کا موقف تھا کہ کیا اسلام میں ماسٹر آف روسٹر کا کوئی تصور موجود ہے، ماسٹر تو صرف اللہ تعالی کی ذات ہے، اگر نوآبادیاتی نظام پر چلنا ہے تو آزادی لینے کا کیا فائدہ تھا۔

اٹارنی جنرل  بولے؛ آئین میں ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا، آج فل کورٹ بیٹھی ہوئی ہے وہ اس حوالے سے تعین کر لے۔

جسٹس منیب اخترکے مطابق  پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد ماسٹر آف روسٹرز کمیٹی ہوگی، جو وہی کام کرے گی جو چیف جسٹس کرتا ہے، کیا نوآبادیاتی ہے کیا نہیں اس بحث میں نہ جائیں۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ  ایک جج کے ہاتھ میں اختیار نہیں دینا تو 3 کے کیوں، 14 ججز کو ایک جج کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا تو 12 کو 3 کر کیسے چھوڑا جائے، اگر ماضی میں کسی چیف جسٹس نے اختیار فل کورٹ کو نہیں دیا تو آپ دیدیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے صرف ایک سوال ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی ہے یا نہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر غیرآئینی ہوا تو برقرار نہیں رہے گا، تلوار کے نیچے گردن ہو تو بھی لوگوں نے کلمہ پڑھا، پڑھ لیا تو بات ختم، کسی کی نیت پر کیوں بات کریں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کو عزت دیں تاکہ وہ ہمارے فیصلوں پر عمل کریں، قانون اچھا یا برا ہونے پر بحث ہوسکتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ میرا ایک سوال قانون آئینی ہونے اور دوسرا پارلیمان کے اختیار کا تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کی شقیں کیسے آئین سے متصادم نہیں ہیں۔

اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی ثابت کرنے کا بوجھ درخواست گزاروں پر ہے، جسٹس منیب اختر بولے؛ آپ صرف یہ کہہ دیں کہ درخواست گزار اپنا بوجھ اتارنے میں ناکام رہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے لیے پارلیمنٹ کو قانون سازی کے براہ راست اختیار کی ضرورت نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو بڑھانے سے متعلق پارلیمنٹ براہ راست قانون سازی کر سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو بڑھا سکتا ہے کم یا ختم نہیں کر سکتا، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ سے متعلق پارلیمںٹ کو براہ راست قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ یعنی جو آئینی پابندی ہائیکورٹس اور شریعت کورٹ کے لیے ہے وہ سپریم کورٹ کے لیے نہیں ہے، اس موقع پر سماعت میں 35 منٹ کا وقفہ کردیا گیا۔

وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت

وقفہ کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسٹیل مل کیس میں سپریم کورٹ کے اختیارات سے تجاوز میں مسائل بڑھے، ریکوڈک کیس میں بھی سپریم کورٹ کی مداخلت سے ملک کو اربوں روپے نقصان ہوا۔

جسٹس منیب اختر بولے؛ عدالت کا کون سا فیصلہ درست تھا کونسا نہیں اس پر لوگ بات کرتے رہیں گے، آپ سے لیکچر سننے نہیں بیٹھے کہ کونسا فیصلہ درست تھا کونسا نہیں، ماضی کے فیصلوں کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمنٹ کو مداخلت کا اختیار مل گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم میں تنقید سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے،کوئی اپنی دلیل بتانے کے لیے حقائق بتانا چاہتا ہے تو اسے سننا چاہیے، اٹارنی جنرل صرف ہمیں آئینہ دکھا رہے ہیں، انہیں بات پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔

جسٹس یحیحی آفریدی بولے؛ اس بات پر اتفاق ہے کہ 184 تھری سے پارلیمنٹ اور حکومت کو مسئلہ ہوا، اصل چیز پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کی آئینی حیثیت ہے، اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے کم نہیں کر سکتی۔ آرٹیکل 184 یا آرٹیکل 185 کے دائرے کو پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر  نے دریافت کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھانے کی پارلیمنٹ پر کوئی حدود بھی ہیں یا نہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 212 عدالتوں سے متعلق قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کی حد مقرر کرتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اطلاق قانون بننے کے دن سے ہوگا یا ماضی سے، اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ قانون کے مطابق اس کے اطلاق کی کوئی حد نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ ظاہری طور پر آپ کی دلیل مان لیں تو پارلیمنٹ ایک کے بجائے کئی اپیلوں کا حق دے سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پاٹا کے علاقوں تک ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کو بڑھایا گیا تھا، ہائیکورٹس کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کے لیے اس حد تک قانون سازی ممکن ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن بولے؛ اپیل کے ذریعے پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار بڑھایا گیا جو کہ ممکن نہیں ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جن مقدمات میں نظرثانی پر فیصلہ ہوچکا کیا ان میں اپیل ممکن نہیں ہوگی، اسی طرح چیف جسٹس بولے؛ اگر کوئی نظرثانی اور اپیل ایک ساتھ دائر کرے تو کیا ہوگا۔اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ نظرثانی خارج ہونے کے بعد اپیل دائر ہو توعدالت کیس کا جائزہ لے گی۔

جسٹس شاہد وحید نے دریافت کیا کہ اس نکتے پر کیا کہیں گے کہ اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم ضروری تھی، اٹارنی جنرل بولے؛ سپریم کورٹ کے اختیارات آئین میں واضح ہیں، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا کہ آرٹیکل 185 کے تحت کیا پارلیمنٹ تیسری اور چوتھی اپیل کا حق دے سکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فی الحال تو پہلی اپیل کا حق دیا گیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ بات اپیل کے نمبر کی نہیں اصول کی ہے، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ اٹارنی جنرل، اگر آپ آرٹیکل 185ٹو پڑھ لیں تو شاید جواب مل جائے، وہاں ایک ہی اپیل کا ذکر ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ فیڈرل شریعت کورٹ بنی تو دیگر عدالتوں سے اختیارات واپس لیے گئے تھے، اعلی عدلیہ کے کچھ اختیارات لیکر شریعت کورٹ کو دیے گئے، اسلام میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا کوئی تصور نہیں ہے۔ سپریم کورٹ سے کوئی اختیار چھینا نہیں جا رہا بلکہ مزید دیا جا رہا ہے، آمر نے اختیار واپس لیا تو سب خاموش ہوگئے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ چیف صاحب کا سوال ہوگیا ہے تو میرا سوال بھی لے لیں، آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے، قانون میں وقت کیساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے، کیا قانون سازی کے لیے دو تہائی اکثریت کی شرط ختم نہیں ہوگئی، شاید آپ کے دلائل میں نے دے دیے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ماضی میں منشیات کے مقدمات بھی شریعت کورٹ سنتی تھی، منشیات کے حوالے سے نیا قانون بنا تو اپیل ہائی کورٹ میں سنی جانے لگی، سادہ قانون سازی کے ذریعے شریعت کورٹ کا اختیار کم کیا گیا، سپریم کورٹ کا اختیار قانون سازی سے کم نہیں ہوسکتا۔

جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ آرٹیکل 191 میں ’لا‘ کا لفظ استعمال کر کے قانون سازی کے لیے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جب آئین میں کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تو پارلیمنٹ کوئی بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جب ڈکٹیٹر شپ چل رہی تھی اور ایک جابر نے حقوق سلب کر لیے تھے تو اس وقت کوئی نہیں بولا اور اب جب پارلیمان نے قانون سازی کی تو سوالات ہو رہے ہیں، یہاں سپریم کورٹ کو مزیداختیار دیا جا رہا ہے اگر نہیں پسند آ رہا تو کالعدم قرار دے دیجیےگا۔

اٹارنی جنرل عثمان منصور کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور توقع ہے کہ فیصلہ آج ہی شام ساڑھے 5 بجے تک سنادیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp