پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کیا؟

بدھ 11 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حلف اٹھائے جانے کے بعد سب سے اہم کیس قرار دیے جانے والے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ آچکا ہے، جس میں پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ کے رولز میں کی گئی ترمیم کا کچھ حصہ درست اور ایک شق کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔

اس فیصلے کی اہمیت کیا ہے؟

ویسے تو سپریم کورٹ آف پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا مقدمہ تھا جس کو براہِ راست سرکاری ٹی وی پرنشر کیا گیا اور اس سے ہی اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن پھر بھی اگر اس کیس کی اہمیت آپ نہیں سنجھ سکے تو ہم آپ کو آسان الفاظ میں سمجھاتے ہیں۔

یہ کیس بنیادی طور پر چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو محدود کرنے کے قانون سے متعلق تھا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم کر کے بنچز کی تشکیل کے چیف جسٹس تک محدود اختیار کا دائرہ بڑھاتے ہوئے 2 سینیئر ججز کو بھی شامل کر لیا تھا یوں اس اختیار کو چیف جسٹس اور 2 سینیئر ترین ججز کی 3 رکنی کمیٹی کو سپرد کر دیا تھا۔

اس قانون کی دوسری شق 184 سیکشن 3 یعنی عوامی مفاد عامہ کے کیسز کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینے سے متعلق تھی، جبکہ تیسرا اہم نقطہ اپیل کا حق دینے کے قانون کا اطلاق ماضی کے کیسز پر بھی لاگو کرنا تھا۔

اس قانون پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی بنچ نے حکم امتناعی جاری کیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان اس کیس کو انتہائی اہمیت دے رہے تھے کیونکہ ماضی میں وہ بنچز سے یہ بات کہہ کر علیحدگی اختیار کرچکے تھے کہ بنچز کی تشکیل غیر قانونی طریقے سے ہورہی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا ہے؟

سپریم کورٹ کے نئے آنے والے چیف جسٹس نے اس مقدمے کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جس نے 5 طویل سماعتیں کیں۔ بدھ کو سنائے گئے اس فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے اس قانون کی دوشقوں کو منظور کر لیا گیا جبکہ ایک کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے بینچز کی تشکیل کے لیے 3 رکنی کمیٹی بنانے کے قانون کو درست قرار دیا گیا ہے یعنی اب بینچز کی تشکیل صرف چیف جسٹس نہیں بلکہ 2 سینیئر ترین ججز کی مشاورت سے کی جائے گی۔

10  ججز نے اس قانون کی حمایت کی جبکہ 5 ججز جسٹس  اعجاز الحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ اے وحید، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اختلاف کیا۔

دوسری اہم شق

اس قانون کی دوسری اہم شق یعنی عوامی مفاد عامہ کے کیسز میں اپیل کا حق دینے کے قانون کو بھی درست قرار دیا اور 9 ججز نے اس کی حمایت جبکہ 6 ججز نے مخالفت کی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی مذکورہ بالا اختلاف کرنے والے 5 ججز میں اس شق کی حد تک شامل ہوئے۔

تیسری شق

اس قانون کی تیسری شق کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے کا لعدم قرار دیتے ہوئے خلاف آئین قرار دیا ۔ جس کے مطابق اپیل کا حق ماضی کے تمام کیسز پر لاگو کیا جانا تھا۔

اس شق کی حد تک 7 ججز نے اختلاف کیا اور مذکورہ بالا 2 شقوں کو درست قرار دینے والے اکثریتی ججز اس شق کی حد تک اقلیتی قرار پائے۔

اس شق میں جسٹس یحییٰ آفریدی کے علاوہ جسٹس حسن علی رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر نے چیف جسٹس کے رائے سے اختلاف کیا اور یوں چیف جسٹس کی رائےسے متفق ججز کی تعداد اقلیت میں تبدیل ہوئی۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر قانون دان کیا کہتے ہیں؟

سینیئر قانون دان عمران شفیق اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب کوئی چیف جسٹس اپنا من پسند بینچ بنا کر ملک کی تقدیر کا فیصلہ نہیں کر سکے گا، اور اگر وہ  قانون و انصاف کو کچلنے کی کوشش کرے گا بھی تو ایسے فیصلے کو ایک بڑا بینچ (جس میں پہلے والے بینچ کے جج شامل نہیں ہونگے) اپیل کےاختیار کے  ذریعے کالعدم کر سکے گا۔

سپریم کورٹ اپنے ہی چیف جسٹس کی آمریت سے آزاد ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے سپریم کورٹ اپنے ہی چیف جسٹس کی آمریت سے آزاد ہو گی۔ چیف جسٹس اپنے ساتھی ججوں کی مشاورت سے کام کرے گا۔ اور سپریم کورٹ ایک ادارے کے طور پر کام کرےگی۔ امید ہے کہ اب چیف جسٹس کو  بلیک میل کر کے یا اسے ہمنوا بنا کر پوری سپریم کورٹ کو یرغمال بنانےکا دور ختم ہو جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب سوموٹو لیتے وقت چیف جسٹس یہ سوچے گا کہ  پہلے 5 ججوں کا بینچ بنانا ہے اور پھر بعد میں اس سے بڑا بینچ اپیل بھی سنے گا۔ اب وہ بہت ہی بدقسمت ہو گا جس کے خلاف دونوں فورمز (5 رکنی  ابتدائی بینچ  اور پھر لارجر ایپلیٹ بینچ) تقریباً پوری سپریم کورٹ ہی فیصلہ دے دے۔ اوراب سپریم کورٹ کسی فائل کو سالہا سال تک دبا کر نہیں بیٹھے گی بلکہ 2 ہفتوں میں کیس کی ابتدائی سماعت ہو سکے گی۔

قانون سازی کی آڑمیں سیاسی مقصد کو روکا گیا ہے

سینیئر قانون دان اکرام چوہدری اس حوالے سے کہتے ہیں کہ آج کے فیصلے سے کم از کم قانون سازی کی آڑمیں سیاسی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس کو روکا گیا ہے۔ جو کسی بھی عدالت کےفیصلے کے خلاف سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے جو دروازہ کھولنے کی کوشش کی جارہی تھی اس کوروکا گیا ہے۔

پینڈورا باکس کھل جاتا

انہوں نے کہا کہ اگر ماضی کے فیصلوں پر اپیل کا حق دینے کا اطلاق ہوتا تو ایک پینڈورا باکس کھل جاتا جس جے عدالتوں اور سائلین کو مشکلات ہوتیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp