پاکستان مسلم لیگ ن 21 اکتوبر کو مینار پاکستان پر جلسہ کرنے جا رہی ہے۔ یہ جلسہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی پر انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے ہو گا۔ اس جلسے کے انتظامات بھی بڑے پیمانے پر کیے جا رہے ہیں، ن لیگ اس جلسے کے حوالے سے دعویٰ کر رہی ہے کہ یہاں پر 10 لاکھ افراد نواز شریف کا استقبال کرنے آئیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا 10 لاکھ لوگ مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں سما سکیں گے؟ وی نیوز سے بات کرتے مینار پاکستان انتظامیہ نے بتایا کہ مینار پاکستان کی جگہ کا نام گریٹر اقبال پارک رکھا گیا ہے، یہ نام شہباز شریف جب وزیر اعلی پنجاب تھے اس وقت رکھا گیا تھا، گریٹر اقبال پارک کا کل رقبہ اس وقت 125 ایکٹر کے قریب ہے جس کے اندر پارک، تفریح گاہ، ہوٹلز بھی بنائے گئے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے 21 اکتوبر کی جلسہ گاہ کے لیے 10 سے 11 ایکٹر رقبہ مختص کیا گیا ہے، انتظامیہ کے مطابق 10 سے 11 ایکٹر رقبے پر 25 سے 30 ہزار کر سیوں کی گنجائش ہے، اگر لوگ کھڑے ہوکر بھی جلسہ دیکھیں تو 35 سے 40 ہزار لوگ اس رقبے میں سما سکتے ہیں۔
انتظامیہ کے مطابق اس سے زیادہ کی جلسہ گاہ کے اندر گنجائش ہی نہیں ہے، ن لیگ کا دعویٰ اپنی جگہ مگر جو جلسہ گاہ کی جگہ ہے اس میں گنجائش اسی قدر ہے۔
’مینار پاکستان پر سب بڑا جلسہ 1940 میں ہوا تھا‘
مینار پاکستان کی انتظامیہ نے وی نیوز کو بتایا کہ تاریخ میں سب بڑا ہجوم 23 مارچ 1940 میں مینار پاکستان پر جمع ہوا تھا جب قرارداد لاہور پیش کی گئی تھی جو بعد میں قراداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ مینار پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا آل انڈیا مسلم لیگ کا جلسہ تھا۔ اس وقت اس پارک کو منٹو پارک کہا جاتا تھا۔
مزید پڑھیں
’تاریخ میں دوسرا سب سے بڑا سیاسی جلسہ 1970 میں ذوالفقار علی بھٹو نے مینار پاکستان پر کیا تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالی جا چکی تھی اور بھٹو نے پنجاب کے عوام سے اس میدان کو بھر دیا تھا اوراس کا سیاسی فائدہ پھر آپ کو انتخابات میں نظر آیا تھا کہ ایک نوزائیدہ جماعت پاکستان کا انتخاب جیت گئی اور ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بن گئے۔‘
پاکستانی سیاست میں مینارپاکستان کے اس گراؤنڈ نے تیسری بار بڑا سیاسی شو اس وقت دیکھا جب محترمہ بینظیر بھٹو 1986 میں وطن واپس آئی تھیں۔
’یہ ایک فقید المثال استقبال تھا اور بی بی نے یہاں مینار پاکستان پر جلسہ کیا تھا اور ایک خلقت تھی جو اُمڈ آئی تھی، بعد میں ثابت ہوا کہ پنجاب نے اپنا فیصلہ دے دیا تھا اور بینظیر بھٹو بعد میں ملک کی وزیر اعظم بھی بنیں۔‘
ویسے تو لاہور پاکستان میں سیاسی گہما گہمی کا ہمیشہ سے ہی مرکز رہا ہے اور سیاسی جماعتیں یہاں متحرک رہی ہیں لیکن مینار پاکستان کے اس میدان کو بھرنے کا خیال شاذو نادر ہی آیا ہے۔ البتہ لاہور کا موچی دروازہ اور ناصر باغ ایسے مقامات رہے ہیں جو سیاسی جماعتوں کے لیے اس سے بھی محبوب رہے ہیں کہ انہیں بھرنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی 1990 میں ایک دفعہ مینار پاکستان پر جلسہ کیا تھا جو کافی عرصے تک یاد رکھا گیا تھا۔‘
حالیہ سیاسی تاریخ میں عمران خان کے 2011 کے جلسے نے ایک دفعہ پھر مینار پاکستان کے گراؤنڈ کو بھرنے کی سیاسی حیثیت کو اجاگر کر دیا۔
تحریک انصاف کے اس جلسے نے ایک دفعہ پھر ملکی سیاست کو بدل کر رکھ دیا جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو بہت پذیرائی ملی اور عمران خان 2018 میں وزیر اعظم پاکستان بننے میں کامیاب ہوگئے۔
اس کے بعد 2020 میں پی ڈی ایم نے مینار پاکستان پر جلسہ کیا لیکن اسے وہ پذیرائی نہ مل سکی تھی جو 2011 میں عمران خان کو ملی تھی۔
اب ن لیگ دوبارہ اس مینار پاکستان کو بھرنے کا دعویٰ کر رہی ہے، تاریخ سے وابستہ لوگوں کا خیال ہے کہ اس دفعہ ممکن ہے کہ نواز شریف کا استقبال پہلے سے کافی بہتر ہو کیوں کہ ان کی جماعت اس دفعہ مینار پاکستان جلسہ ایک چیلنج کے طور پر کر رہی ہے۔
سیاسی اجتماعات کے علاوہ مینار پاکستان کا یہ گراؤنڈ ہمیشہ سے مذہبی جماعتوں کو بھی محبوب رہا ہے۔ تقریباً ہر سال یہاں بڑے بڑے مذہبی اجتماع بھی منعقد ہوتے ہیں۔
مذہبی اسکالر طاہرالقادری نے بھی 2012 میں مینار پاکستان پر جلسہ کر کے لوگوں کو اضطراب میں ڈال دیا تھا، اس جلسے کے بعد طاہر القادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے سیاست میں بھر پور حصہ لیا لیکن وہ نتائج بطور سیاسی جماعت نہ مل سکے جو طاہر القادری چاہتے تھے۔