پاک بھارت ٹاکرا، کیا اس بار قومی ٹیم اسٹریک توڑ پائے گی؟

جمعہ 13 اکتوبر 2023
author image

حماد شاہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کا سب سے بڑا مقابلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی سمجھا جاتا ہے اور میرے خیال سے ایسا سمجھنا بالکل ٹھیک بھی ہے۔

کوئی جتنا بھی کہہ لے کہ اس میچ کو میچ کے طور پر ہی دیکھیں، ہم نہیں دیکھ سکتے بھئی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ تقریبا پونے دو ارب لوگ دیکھتے ہیں اور اطراف کی عوام کے لیے ایک ایک گیند زندگی، موت اور عزت کا معاملہ بنی ہوتی ہے۔ عام طور پر ہار جیت کو کھیل کا حصہ سمجھا جاتا ہے مگر اس میچ میں ہار کی سوچ بھی قبول نہیں ہوتی۔

پچھلی ایک دہائی میں، یا یوں کہہ لیں کہ 2011 کے موہالی سیمی فائنل کے بعد سے 2021 تک، پاکستان اور بھارت کے درمیان ‘کرکٹ راؤلری’ تھوڑی کم ضرور ہوگئی تھی ۔ مگر میرے خیال میں 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل اور پھر 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے میچ میں پاکستان کی جیت نے اس بجھتے دیے کو پھر بھڑکا دیا تھا۔

اس کے علاوہ 2022  کے ایشیا کپ اور پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ والے اعصاب شکن پاک بھارت ٹاکرے نے دونوں ٹیموں کی مقابلوں میں بڑی جان پیدا کی ۔ اب دونوں ٹیمیں 14 اکتوبر کو احمدآباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں آمنے سامنے آئیں گی۔ اور اگر اُس روز پاکستان ون ڈے ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار اپنے روایتی حریف کو ہرا دیتا ہے تو  ‘پاک بھارت کرکٹ راؤلری’ کو اگلے چند سالوں کے لیے نئی زندگی مل جائے گی۔

ون ڈے ورلڈ کپس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک 7 میچ ہو چکے ہیں اور سارے کے سارے بھارت نے جیتے ہیں۔ ان تمام میچوں میں ایک بات مشترک ہے کہ بھارتی ٹیم نے ہر میچ بڑی آسانی سے جیتا۔ ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ 7 میں سے 6 میچوں میں بھارت نے پہلی بیٹنگ کی۔

اگر دونوں روایتی حریفوں کے درمیان میچوں کے سٹیٹس کو دیکھا جائے تو پاکستان کے ہارنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ قومی ٹیم نے کبھی بھارت کو پہلے بولنگ کرتے ہوئے آل آؤٹ نہیں کیا۔

ذرا 1992 کے ورلڈ کپ کا سڈنی میں ہونے والا میچ دیکھیں۔ بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے 7  وکٹوں پر 216 رنز بنائے تھے۔ جواب میں پاکستان 173 پر آل آؤٹ ہوگیا تھا۔

اسی طرح 1996 کے ورلڈ کپ کا مشہور زمانہ بنگلور کوارٹر فائنل دیکھیں۔ بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور 8 وکٹوں کے نقصان پر 287 رنز بنائے۔ جواب میں پاکستان 248 رنز ہی بنا سکا۔

یہی کہانی 1999 کے ورلڈ کپ میں مانچسٹر میں کھیلے گئے میچ کی ہے۔ بھارتی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کی تھی جبکہ پاکستانی ٹیم انہیں آل آؤٹ کر پائی  نہ 228 سکور کا ٹارگٹ پورا کر سکی۔

سنہ 2003 کے ورلڈ کپ میں یہ ’جنکس‘ ٹوٹا اور پاکستان نے ٹاس جیت کر ورلڈ کپ میں پہلی مرتبہ بھارت کے خلاف پہلے بیٹنگ کی۔ تب 274 سکور کا ہدف بہت بڑا ہدف سمجھا جاتا تھا لیکن اس دن لٹل ماسٹر سچن ٹنڈولکر نے اپنی زندگی کی بہترین ون ڈے اننگز کھیل کر میچ 30 اوورز میں ہی یکرفہ کر دیا تھا۔

پھر 2011 کا موہالی سیمی فائنل، جو اکیسویں صدی کے پاکستان اور بھارت مقابلوں کا سب سے بڑا میچ تھا۔ اس میں بھی پہلے بھارتی ٹیم نے بیٹنگ کی اور موہالی کی بیٹنگ فرینڈلی پِچ پر 260 رنز کا ٹارگٹ دینے میں کامیاب ہوگئی۔ رکیں ذرا! یہاں بھی دیکھتے جائیں کہ اس میچ میں بھی پاکستان نے بھارت کے پورے کھلاڑی آؤٹ نہیں کیے تھے۔ 260 کے ہدف کے جواب میں پاکستانی ٹیم 231 پر ڈھیر ہوگئی تھی۔

پھر آیا 2015 کا ورلڈ کپ جہاں آسٹریلیا کے ایڈیلیڈ اوول کے میدان میں ہونے والا پاک بھارت ٹاکرا بھی یکطرفہ رہا۔ بھارت نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف ’7وکٹوں‘ کے نقصان پر 300 رنز بنائے۔ بدلے میں پاکستان نے 224 پر ہاتھ کھڑے کر دیے۔

اس کے بعد 2019 کے ورلڈ کپ میں بھی بھارتی سورماؤں نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے گرین ٹیم کے خلاف خوب رنز بٹورے۔ اس میچ میں بھی پاکستانی بولرز 10 وکٹیں نہ لے سکے اور یوں وہ میچ بھارت 89 رن کے مارجن سے جیت گیا۔

یہ سارے اعداد و شمار بتانے کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ اگر پاکستان 14 اکتوبر کو بھارت کے خلاف پہلے بولنگ کرتا ہے تو اُس کا پہلا ہدف پوری 10 وکٹیں لینا ہونا چاہیے۔ جب بولنگ سائڈ مد مقابل ٹیم کو آل آؤٹ کرتی ہے تو اس سے مخالف ٹیم پر نفسیاتی دباؤ اور اپنی ٹیم میں حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر پاکستان پہلے بیٹنگ کرتا ہے تو پھر ایک بات ذہن میں رکھ لینا چاہیے کہ 350 سے نیچے کوئی سکور قابل قبول نہیں ہوگا۔

پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ساری ذمہ داری بابر اعظم، فخر زمان اور محمد رضوان پر ہوگی جبکہ پہلے بولنگ کرتے ہوئے شاہین شاہ آفریدی کو پہلے اوور میں بھارتی کپتان روہت شرما کی وکٹ لازمی لینا ہوگی۔

یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن یہی چھوٹی باتیں بڑے میچ کا نقشہ بدلنے کے لیے کافی ہیں۔

ٹیم 350 سکور کرے گی، تو ہی پاکستانی بولر احمد آباد کی فلیٹ پِچ پر دیوقامت بھارتی بیٹنگ لائن اپ کو قابو کر پائیں گے۔ اگر پاکستان بھارت کو ہرانا چاہتا ہے تو 11 کے 11 کھلاڑیوں کی کارکردگی ضروری ہے۔ ہمارے فیلڈرز کو بولرز کا ساتھ دینا ہوگا۔ ساتھ بھی ایسا کہ گیند ہوا میں اٹھے اور فیلڈر اُسے دبوچ لے۔ اگر کسی ایک بھارتی بلے باز کو بھی دوسرا چانس دیا تو گیم وہیں ختم ہو جانی ہے۔

اسی پاکستانی ٹیم نے 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں یہ جنکس توڑا تھا کہ اب پاکستان ورلڈ کپ میں بھارت کو ہرا سکتا ہے۔ اب امید ہے، بلکہ دعا ہے اور یقین بھی ہے کہ پاکستان ون ڈے ورلڈ کپ میں بھی بھارت کو ہرائے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سافٹ ویئر انجینئرنگ میں ڈگری کرنے کے بعد اس وقت فری لانسنگ اور کانٹینٹ پروڈیوسر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کرکٹ کا جنون کی حد تک شوق ہے اور باقی مانندہ وقت نیٹ فلکس پر بِتاتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp