16دسمبر 2014 پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب دہشتگردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کو نشانہ بنایا اور انہیں بے دردی سے شہید کیا۔ اس دن کے بعد ہی سے پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی زندگی مزید دشوار ہو گئی۔ اور ان کے خلاف پہلی بار بڑے پیمانے پر کریک ڈاون کا آغاز کیا گیا۔
پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کے خلاف آپریشن، کریک ڈاون اور زبردستی واپس بھیجنے کے حوالے مزید تفصیل سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ افغان کب سے پاکستان آنا شروع ہوئے۔
پاکستان میں افغان کب سے رہائش پذیر ہیں؟
افغانستان میں 1979 میں سویت یونین کے حملے کے بعد پہلی بار جنگ سے متاثرہ افغانوں نے پڑوسی ملک پاکستان کا رخ کیا۔ یہاں ان کے لیے باقاعدہ طور کیمپس بنائے گئے، بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے خیبر پختونخوا میں رہائش اختیار کی، زبان اور ثقافت ایک ہونے کی وجہ سے یہاں انہیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
افغان 43 سال سے بے گھر ہیں
سینیئر صحافی منظور علی نے بتایا کہ افغانستان میں جنگ نے افغانوں کو بے گھر کر دیا جو اب بھی یقینی 43 سال بعد بھی بے گھر ہیں۔ صحافی منظور علی کے مطابق افغانستان میں جاری جنگ سے افغان مسلسل ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور دیگر ممالک کا رخ کیا۔
مزید پڑھیں
انہوں نے بتایا کہ افغانستان سے سویت یونین کی واپسی کے بعد نجیب دور حکومت میں بھی امن بحال نہیں ہوسکا اور خانہ جنگی شروع ہو گئی، جس کے نتیجے میں مزید افغان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
نجیب حکومت کے بعد پہلی بار طالبان حکومت میں آئے تو بھی مشکلات میں کمی نہیں آئی۔ طالبان کے خوف سے بھی افغان شہری ملک چھوڑنے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ تاحال جاری ہے۔
افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان پر مہاجرین کا بوجھ بڑھ گیا
نائن 11 کے بعد امریکا نے امریکا نے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تو افغان سرزمین پر ایک بار پھر جنگ شروع ہو گئی۔ جنگ سے افغان متاثر ہوئے مزید افغان ملک چھوڑنے لگے اور پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا۔ دوبارہ نئے کیمپس قائم کیے گئے۔ جہاں مہاجرین کو رہائش کی اجازت مل گئی۔
امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی
20 سال طویل جنگ کے بعد امریکا نے افغانستان سے انخلا شروع کر دیا اور ایک بار پھر امریکا کے خلاف لڑنے والے طالبان اقتدار میں آ گئے۔ یوں طالبان کے خوف اور ڈر سے ایک بار پھر بڑی تعداد میں افغانوں نے اپنا ملک چھوڑ دیا اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کا رخ کیا۔
منظور علی کے مطابق کافی تعداد میں افغان پاکستان بھی آئے ہیں جنہیں ابھی تک کوئی قانونی حیثیت نہیں دی گئی ہے اور اب پاکستانی حکومت نے ایسے تمام افراد کو یکم نومبر سے پہلے ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔
منظور علی نے بتایا کہ حکومتی فیصلے سے سب سے زیادہ افغان ہی متاثر ہوں گے۔
افغانوں کے خلاف کریک ڈاون
پاکستان میں رہائش پذیر مہاجرین بالخصوص بغیر دستاویزات کے رہائش پذیر افغان مہاجرین کیخلاف حکومت کی جانب سے یکم نومبر سے کریک ڈاون کا امکان ہے۔ تاہم یہ فیصلہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
صحافی منظور علی کے مطابق افغانوں کے خلاف کارروائیاں سال بھر جاری رہتی ہے۔ کہیں بھی کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما ہو جائے تو افغانوں کو گرفتار اور تنگ کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
افغان باشندے واپسی کے لیے تیار نہیں
پڑوسی ملک افغانستان میں حالات خراب ہیں۔ بدامنی اور غریت کے باعث پاکستان سمیت دیگر ممالک میں عارضی رہائش پذیر افغان باشندے واپسی جانے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان حکومت نے افغانوں سمیت تمام غیر قانونی رہائش پذیر افراد کو نکلنے کے لیے یکم نومبر تک کا وقت دیا ہے۔ جس سے افغان باشندوں پریشان اور بے چینی میں مبتلا ہیں۔ جبکہ پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کا موقف ہے کہ ان کے ملک میں حالات سازگار نہیں ایسے میں واپسی ممکن نہیں، تاہم انہیں خوف ہے کہ پاکستانی حکومت انہیں زبردستی واپس کر دے گی۔
افغانوں کیخلاف کارروائی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ
سال 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشتگرد وں کے حملے کے بعد ملکی قیادت ایکشن میں آئی۔ اور ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنا۔ جس میں ملک میں دہشتگردوں کے خلاف مؤثر کارروائی سمیت پہلی بار افغانوں کو واپس بھیجنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ یوں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاون ہوئے۔ غیر قانونی افغان باشندوں کو گرفتار کرکے زبردستی واپس کر دیا گیا۔ اور یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔
اس وقت پشاور میں ڈیوٹی دینے والے ایک پولیس افسر نے بتایا میں 2014 میں پہلی بار بڑے تعداد میں افغانوں کو واپس کیا گیا۔ ساتھ ہی افغان مہاجرین بھی ڈراور خوف سے واپس چلے گئے۔ کارروائی کے باعث افغان پراپرٹی اور کاروبار بھی سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ تاہم چند ماہ بعد ہی یہ سلسلہ رک گیا اور معاملات پہلے جیسے ہو گئے۔
ہزاروں افغان باشندوں کو ڈی پورٹ کیا گیا
منظور علی کے مطابق پولیس سال بھر افغانوں کے خلاف کارروائیاں کرتی رہتی ہے۔ لیکن باقاعدہ طور پر کریک ڈاون نیشنل ایکشن پلان کے بعد کیا گیا۔ جس کے دوران ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندوں کو جو بغیر دستاویز کے رہ رہے تھے ڈی پورٹ کیا گیا۔
سال 2017 کے آخر اور 2018 میں دوبارہ نیشنل ایکشن پلان کے فیصلوں کے تحت افغانوں کے خلاف کریک ڈاون شروع ہوا جس سے پھر واپسی کا عمل تیز ہو گیا۔ بڑی تعداد میں افغان پراپرٹی بھی فروخت ہوئی اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گرفتاریوں بھی کی گئیں اور ڈی پورٹ کا عمل بھی تیز کیا گیا۔
افغانوں کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے
صحافی منظور علی کے مطابق افغانوں کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ حکومت فیصلے کرتی ہے وقتی کریک ڈاون کرتی ہے لیکن دیرپا نہیں کر پاتی۔
پاکستان میں 17 لاکھ افغان غیر قانونی طور پر موجود ہیں
پاکستان کو افغان مہاجرین کے لیے جنت کہا جاتا ہے جو یہاں گزشتہ 43 سال سے رہائش پذیر ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کے مطابق پاکستان میں 17 لاکھ کے قریب افغان غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں جبکہ 44 لاکھ مہاجرین ہیں جنہیں قانونی حیثیت دی گئی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق یکم نومبر کے بعد قانونی رہائش پذیر افراد کے خلاف کارروائیاں ہوں گئیں انہیں اور زبردستی واپس بھیج دیا جائے گا۔
دہشتگردی کو افغانوں سے جوڑا جاتا ہے
منظور علی نے بتایا کہ پاکستان میں کہیں بھی کچھ ہوتا ہے اسے افغانستان اور افغانوں سے جوڑا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کتنے فیصد افغان جرائم یا اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ اس کے حوالے سے تحقیقات یا کام نہیں ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہر افغان باشندہ نہ مجرم ہے اور نہ ہی دہشتگرد، لیکن ہر واقعے کے بعد انہیں تنگ کیا جاتا ہے۔
دہشتگردی میں ملوث افغانوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے
افغان امور کے ماہر رستم شاہ کے مطابق دہشتگردی میں ملوث افغانوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے لیکن اس کے لیے مہاجرین کو تنگ کرنا مناسب نہیں۔