دنیا کا وہ قیمتی پتھر جو صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے

جمعرات 12 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا کے5 قیمتی ونیم قیمتی پتھروں میں سے 3 نایاب قسم کے پتھر خیبر پختونخوا میں پائے جاتے ہیں۔ ان قیمتی پتھروں میں سے زمرد سوات، شموزئی، گجر کلے، چار باغ اور کاٹلنگ میں پایا جاتا ہے۔ جب کہ مردان میں دنیا کا بہترین گلابی پکھراج (ٹوپاز) پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ہزارہ اور کوہستان میں پیراڈاٹ، گلگت اوراسکردو میں ایکوامرین، ٹورملین پا یا جاتا ہے۔

آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق ان پتھروں کا شمار دنیا کے نایاب پتھروں میں کیا جاتا ہے جو پاکستان کے شمالی علاقہ میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔

قیمتی دولت ضائع ہو رہی ہے

جدید اور سا ئنسی کان کنی نہ ہونے کے باعث ان علاقوں میں قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کی دولت ضائع ہو رہی ہے۔ اکثر ناتجربہ کاری کے باعث یہ دولت نہ صرف ضائع ہو رہی ہے بلکہ تراش خراش کے بعد ان کی خوبصورتی بھی ماند پڑ جاتی ہے۔

آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق جیمز اینڈ جمالوجیکل انسٹی ٹیوٹ میں بین الاقوامی ماہرین کی ضرورت ہے جو یہاں کے لوگوں کو پتھروں کی تراش خراش کی صحیح معنوں میں تربیت دے سکیں۔

پاکستان قیمتی پتھروں کا گھر

آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (اے پی سی ای اے) کے گروپ لیڈر معمور خان نے کہا ہے کہ قیمتی پتھروں کے شعبے کو صنعت کا درجہ دے کر پاکستان کی معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، پاکستان متنوع اور نایاب اقسام کے قیمتی پتھروں کے ذخائر کا گھر ہے جس میں ہر سال 800,000 کیرٹس روبی، 87,000 کیرٹس زمرد اور 5 ملین کیرٹس پیریڈوٹ برآمد کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

ملینز ڈالر کی برآمدات

انہوں نے کہا کہ جولائی 2021 سے 30 جون 2022 کے دوران قیمتی پتھروں سے 6.77 ملین ماہرین تیار کیے گئے ہیں جبکہ اگست میں 193,132.85 امریکی ڈالراوراے پی سی ای اے کی طرف سے گزشتہ سال جولائی میں 422,004.6 امریکی ڈالرکی برآمدات کی گئیں۔

قیمتی پتھر ایک اہم معدنی شعبہ بن سکتا ہے

انہوں نے کہا کہ قیمتی پتھر ایک اہم معدنی شعبہ بن سکتا ہے اگر اسے جدید خطوط پر ترقی دی جائے۔ اس سے پاکستان کی خراب معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں نمایاں مدد مل سکتی ہے۔

معمور خان کے مطابق اے پی سی ای اے نے 2021-22 میں 4 ملین امریکی ڈالر کے قیمتی پتھروں کی برآمدات حاصل کیں۔

انہوں نے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2018 میں قیمتی پتھروں اور زیورات کی برآمدات 14.1 ملین امریکی ڈالر تھیں جو 2019 میں بڑھ کر 14.6 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئیں جس سے خیبر پختونخوا کے غیر پروسیس شدہ قیمتی پتھروں سے 80 فیصد سے زائد ریونیو اکٹھا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بھاری ٹیکسوں کے علاوہ ٹیکنالوجی اور پیشہ ورانہ تربیت کی کمی خیبرپختونخوا میں جواہرات کی کان کنی پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں جیمز سٹی

نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے معدنیات و معدنی ترقی، منصوبہ سازی و ترقی اور توانائی و برقیات ڈاکٹر سید سرفرازعلی شاہ نے کہا ہے کہ نمک منڈی پشاور قیمتی پتھروں اور معدنیات کے لحاظ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، یہاں ہزاروں افراد اس اہم شعبہ و کاروبار سے وابستہ ہیں۔

ڈاکٹر سید سرفرازعلی شاہ کے مطابق خیبرپختونخوا میں جیمز سٹی کے قیام سے ریونیو امور میں خاطر خواہ ترقی یقینی ہے جبکہ اس سے روزگار کے بیشتر مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ حکومت ایکسپورٹ سیکٹر کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

قیمتی پتھروں کی دنیا بھر میں مانگ

معمورخان کے مطابق خیبر پختونخواکے جیمز اسٹون کی امریکا،جرمنی،فرانس سمیت یورپی اور خلیجی ممالک میں کافی مانگ ہے کیونکہ ان پتھروں کی ساخت صاف اور واضح ہے جبکہ انڈیا کے پتھروں کی ساخت صاف نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ چند سال قبل پشاور شہر کا نمک منڈی بازار دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز تھا، امریکا اور یورپ میں پتھروں کے بیوپاری نمک منڈی کو جیمز اسٹریٹ پکارتے تھے۔

قیمتی پتھر ضائع ہو رہے ہیں

گزشتہ 30 برسوں سے قیمتی پتھروں کے کاروبار سے وابستہ پشاور کے رہائشی ذاکر خان کا کہنا ہے کہ ملک میں 95 فیصد جم اسٹون مائننگ کے فرسودہ طریقے کے سبب ضائع ہو رہے ہیں، حکومت کو ناصرف بہتر اقدامات اٹھاکر ملک کے اس قدرتی اثاثے کو عالمی منڈی تک زیادہ رسائی دینی چاہیے بلکہ ان قیمتی اور نایاب پتھروں کی جانچ کے لیے تحقیقی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

ذاکر خان کے مطابق پاکستان میں قیمتی پتھروں کے اربوں ٹن کے ذخائر موجود ہیں تاہم متعلقہ اداروں کی عدم توجہ کے سبب یہ ذخائر پہاڑ کی شکل میں کھڑے ملک اور قوم کی حالت پر افسوس کر رہے ہیں۔

’پنک ٹوپاز‘ دنیا میں اور کہیں نہیں ملتا

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے جم سٹونز کی امریکا، آسٹریلیا، دبئی، جرمنی، چین، اٹلی، فرانس، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں کافی طلب ہے۔ ان کا زیادہ تر استعمال زیورات میں کیا جاتا ہے، یہ افغانستان کے پنج شیر کے پتھروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پنک ٹوپاز ملتا ہے، جو دنیا میں اور کہیں بھی نہیں ملتا اور یہ روبی کا مقابلہ کرتا ہے۔

دوسرے ملکوں کی اجارہ داری

ذاکر خان کہتے ہیں گو کہ پاکستان ان قیمتی پتھروں سے مالامال ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر دوسرے ممالک کی اجارہ داری ہے۔ یہاں سے نکالے جانے والے اکثر قیمتی پتھروں کو امریکا، جرمنی اور برطانیہ کے باشندوں نے اپنے ناموں سے منسوب کیا ہے، جس کی بڑی وجہ پاکستان میں ان پتھروں سے متعلق لاعلمی اور وسائل کی کمی ہیں۔ معدنیات یہاں پاکستان میں ہیں اور ان کے انسٹیٹیوٹ جرمنی اور امریکا میں ہیں، یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے۔

تحقیق اور مہارت کی ضرورت

وہ کہتے ہیں کہ کچھ پتھروں کی یہاں پر قیمت چند ہزار روپوں سے زیادہ نہیں ہے، جبکہ باہر ممالک میں ان کی قیمت لاکھوں ڈالرز میں لگائی جاتی ہے۔ ذاکرخان کہتے ہیں کہ پاکستان میں اب بھی سینکڑوں اقسام کے مزید نایاب اور قیمتی پتھر موجود ہیں جن کے بارے میں تحقیق، سمجھ اور مہارت کی ضرورت ہے۔

ملک میں 95 فیصد جم سٹون مائننگ کے فرسودہ طریقے کے سبب ضائع ہو رہے ہیں ۔ حکومت کو ناصرف بہتر اقدامات اٹھاکر ملک کے اس قدرتی اثاثے کو عالمی منڈی تک زیادہ رسائی دینی چاہیے بلکہ ان قیمتی اور نایاب پتھروں کی جانچ کے لیے تحقیقی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp