یوں تو پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت نے مختلف قوانین کے بارے میں کافی قانون سازی اور ترامیم کیں جس کو بعض مبصرین نے ریکارڈ قانون سازی قرار دیا لیکن اس میں سے پارلیمنٹ کے منظور کردہ چند ایکٹس سپریم کورٹ میں چیلنج ہو کر مسترد ہوگئے۔
سابق چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور میں جب سپریم کورٹ کافی منقسم نظر آتی تھی اور مذکورہ دور میں سپریم کورٹ نے کچھ ایسے بھی فیصلے کیے جن پر سپریم کورٹ کے اندر بھی کافی مزاحمت ہوئی اور کچھ ججز نے کہا کہ منتخب پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے غیر منتخب ججز سے بالادست ہے لیکن پہلے دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں پارلیمان کی جانب سے کون سے قوانین چیلنج کیے گئے اور ان کے نتائج کیا برآمد ہوئے۔
سپریم کورٹ میں چیلنج ہونے والے قوانین اور ان کا انجام
سب سے پہلے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے منظور کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پرسابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے رواں برس 13 اپریل کو حکم امتناع جاری کیا جس میں کہا گیا کہ مذکورہ ایکٹ عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے۔
اس کے بعد 11 اگست کو سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ 2023 کو کالعدم قرار دیا۔ مذکورہ ایکٹ میں ایک نقطہ سپریم کورٹ ازخود اختیارات کے تحت دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کا تھا۔
15 ستمبر کو سابق چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب قوانین میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیا۔
اس وقت سپریم کورٹ میں آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کی گئی ترامیم کے خلاف بھی درخواستیں زیرالتوا ہیں۔
پارلیمنٹ کی بالا دستی پر سپریم کورٹ ججوں کی رائے
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے تھے کہ پارلیمان جب کوئی قانون بناتی ہے تو ہم اس میں خامیاں تلاش کرتے ہیں اور اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جبکہ مارشل لا کے سامنے ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ ایک اور موقعے پر انہوں نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اچھی نیت سے بنایا۔ اس سے قبل چیف جسٹس نے یہ بھی ریمارکس دیے تھے کہ اس ایکٹ کے تحت میں اپنے اختیارات میں کمی کر رہا ہوں۔
نیب ترامیم کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ میرے نزدیک کیس کا بنیادی سوال نیب ترامیم نہیں، پارلیمان کی بالا دستی ہے، پارلیمان پاکستان کے 24 کروڑ عوام کے چنے گئے نمائندوں کا ایوان ہے، یہ سوال پارلیمانی آئینی جمہوریت کی اہمیت کا ہے، یہ سوال ریاست کے 3 ستونوں اور طاقت کی تقسیم کا ہے، یہ معاملہ محدود عدالتی حدود کا ہے جس میں غیر منتخب ججز ہوتے ہیں۔
اس سال مئی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے ساتھی جج جسٹس جمال خان مندوخیل سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ پارلیمانی قانون ساز ایکٹس کی آئین کے تناظر میں عدالتی تشریح (جوڈیشل اسکروٹنی) کے عمل کو عدالتی نظرثانی (جوڈیشل ریویو) کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے لکھا ہے کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ میں ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے بارے میں عدالتی نظرثانی کرتے ہوئے عدالتوں کو بہت محتاط رویہ اور عدالتی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے پاس پارلیمانی ایکٹس پرعدالتی نظرثانی کا اختیار ہے لیکن اس اختیار کو پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ایک سرد جنگ میں بدلنے کے بجائے حکمت اور عدالتی تحمل کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سال جون میں مہنگی بجلی کے بارے میں جماعت اسلامی کی جانب سے کے الیکٹرک کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ جماعت اسلامی پارلیمنٹ کا حصہ ہے لہٰذا اس معاملے کو پارلیمنٹ میں طے کیا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ کی اس بات پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا تھا کہ اگر پارلیمنٹ ناکام ہو جائے تو عدالتوں کا رخ کیا جاتا ہے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ پارلیمنٹ کا احترام لازم ہے ۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ سابق چیف جسٹس کی شکست ہے، عرفان قادر
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کی جیت نہیں بلکہ سابق چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال کی شکست ہے جنہوں نے 3 ججوں کی مدد سے پوری سپریم کورٹ کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔
انہوں نے موجودہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے پارلیمنٹ کی بالادستی پر دیے گئے ریمارکس کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے بعض ججز آئینی معاملات کو زیادہ نہیں سمجھتے۔
پارلیمنٹ نے تو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کو طاقت فراہم کی تھی کہ 3 ججز کی مشاورت سے کام کیا جائے لیکن سابق چیف جسٹس معاملہ سمجھ نہیں پائے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع جاری کردیا۔
پارلیمنٹ بالادست لیکن آئین کی تشریح عدلیہ کا اختیار ہے، بیرسٹر علی ظفر
سابق وفاقی وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پارلیمان کی بالادستی کا نظریہ تو بہت پہلے سے موجود ہے اور بہت سارے عدالتی فیصلے اس چیز کی توثیق کرتے ہیں لیکن آئین پارلیمنٹ سے بھی بالا تر ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ آئین بنا بھی سکتی ہے اور اس میں ترمیم بھی کر سکتی ہے لیکن آئین اور قانون کی تشریح کا اختیار ہمیشہ سے عدلیہ کے پاس رہا اور 11 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس نے بھی اسی اصول کی توثیق کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصلے کے مطابق ازخود اختیارات اور بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے 3 ججوں پر مشتمل کمیٹی والا قانون تو درست لیکن ازخود فیصلوں کے خلاف ماضی کی اپیلوں کا حق درست نہیں اس لیے اس کو کالعدم قرار دیا گیا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا میری نظر میں سپریم کورٹ نے کل آئین کی تشریح کے حوالے سے اپنا اختیار استعمال کیا ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے سپریم کورٹ اختیارات میں مداخلت ہوئی، ایڈووکیٹ عمر اعجاز گیلانی
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ عمر اعجاز گیلانی نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ چیف جسٹس کے ازخود اور بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے اختیارات کے بارے میں کافی اعتراضات اٹھائے جاتے تھے لیکن یہ کام سپریم کورٹ اگر اپنی رولز میکنگ پاور کے تحت خود سے کرتی تو اچھا ہوتا کیونکہ سپریم کورٹ کو رولز میکنگ کی پاور آئین دیتا ہے۔
ایڈووکیٹ عمر اعجاز گیلانی نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ منظور کر کے سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات پر سمجھوتہ کیا ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے اگر سیاستدان ٹھیک کام نہیں کر رہے تو مارشل لا لگا دیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں نظام سیاستدانوں ہی کے ذریعے سے درست کرنا ہے۔