اسرائیل کے حامی امریکی ودیگر مغربی میڈیا نے چند روز قبل دعوی کیا کہ فلسطینی مزاحمت کار گروہ حماس نے حملے کے دوران اسرائیلی بچوں کے سر کاٹے ہیں۔
اس خبر کو بنیاد بنانے پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن ہایو سمیت امریکی اور دیگر مغربی قیادت نے فلسطینیوں پر قبضے اور ان کے مسلسل قتل عام کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کی۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے باقاعدہ اعلان کیا کہ دو دہائیوں سے محاصرے کا شکار غزہ کے مزاحمت کاروں نے سرحد پر واقع اسرائیلی قبضہ والی آبادی میں گھس کر 40 بچوں کو قتل کیا اور ان میں سے کئی کے سر کاٹ ڈالے۔
اسرائیلی صدر کے سابق ترجمان ایلون لیوی نے بھی اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم انہیں مٹا دیں گے۔‘
Hamas beheaded babies.
We will eradicate them. pic.twitter.com/EnE827G3XV
— Eylon Levy (@EylonALevy) October 10, 2023
امریکی صدر صدر جوزف بائیڈن نے 10 اکتوبر کو وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن خطاب کے دوران اشتعال انگیز دعوے کو دہرایا، جب کہ پورے مغربی میڈیا نے بغیر کسی تحقیق کے اس کہانی کو آگے بڑھایا۔
The President of the United States sends to think they are pic.twitter.com/sKFHPUisuN
— James (@TheN1James) October 12, 2023
سی این این نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اسرائیلی بیانیہ میں استعمال ہونے والی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے رپورٹ کیا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے داعش اسٹائل کی کارروائی میں بچوں اور پالتو جانوروں کے سر کاٹے ہیں۔
مغربی میڈیا نے اس خبر کے سورس کے طور پر جس فرد کو دکھایا وہ اسرائیلی فوج کی وردی زیب تن کیے ہوئے ہے۔
اس فرد کی شناخت ڈیوڈ بن زیون کے نام سے ہوئی ہے۔ وہ اسرائیلی ریزرو فوج کا عہدے دار اور ایک انتہا پسند آباد کار ہے جو فلسطینیوں کو علاقے سے نکالنے کے لیے باقاعدہ مہم چلاتا رہا ہے۔
اسرائیلی فوج کی یونٹ 71 کے ڈپٹی کمانڈر کے طور پر کام کرنے والے ڈیوڈ بن زیون نے اسرائیلی ریاست سے وابستہ i24 نیوز کے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ ’ہم نے گھر گھر جا کر بہت سے دہشت گردوں کا قتل کیا، وہ بہت برے ہیں۔ انہوں نے بچوں اور عورتوں کے سر کاٹے لیکن ہم ان سے زیادہ مضبوط ہیں۔‘
اسرائیلی ریاست کے بیانیہ کے مطابق 1948 سے صہیونی قبضہ کا شکار فلسطینیوں کو ’جانور‘ قرار دیتے ہوئے ڈیوڈ بن زیون کا کہنا تھا کہ ’ان کا کوئی دل نہیں ہے۔‘
اس رپورٹ کو ویب سائٹ اور مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر لاکھوں کی تعداد میں پروموٹ کیا گیا۔ اسرائیل کی وزارت خارجہ سمیت دیگر مغربی ملکوں میں موجود اسرائیل کے حامیوں نے اسے بار بار شیئر کیا۔
آئی 24 کے رپورٹر کی یہ خبر مسلسل نشر کیے جانے کے کئی گھنٹوں بعد چینل نے رپورٹ کیا کہ یہ خبر فوجیوں کے ذریعے اسے ملی ہے۔
رپورٹر کے مطابق “فوجیوں نے مجھے بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ 40 بچے/بچے مارے گئے ہیں۔ مرنے والوں کی صحیح تعداد ابھی تک معلوم نہیں ہے۔‘
"They chopped heads of children and women," says David Ben Zion, Deputy Commandee of Unit 71 to our @Nicole_Zedek, while reporting from the massacre in Kfar Aza in southern Israel pic.twitter.com/IHSB0ywMbF
— i24NEWS English (@i24NEWS_EN) October 10, 2023
ایک جانب اسرائیلی وزیراعظم، امریکی صدر، اسرائیلی وزارت خارجہ، سی این این اور دیگر مغربی میڈیا آؤٹ لیٹس اس دعوے کو مسلسل نشر کرتی رہیں تو دوسری جانب خود اسرائیلی فوج کے ذریعے کیے گئے خصوصی دورے میں شامل ایک اور صحافی نے اس پر اعتراضات اٹھائے۔
فلسطینی زمین پر قبضہ کر کے قائم کی گئی اسرائیلی آباد کار عزا کے فوجی دورے میں شامل صحافی اورین زیو نے کہا کہ ’حماس کی جانب سے بچوں کے سر قلم کیے جانے‘ کی رپورٹس کے بارے میں ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملا نہ ہی وہاں موجود فوجی افسران واہلکاروں نے ایسے کسی واقعے کا ذکر کیا۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دھماکہ خیز دعوے کے پیچھے کون ہے؟
گرے زون نامی ویب سائٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کا یہ اہلکار ماضی میں ایک پوری فلسطینی آبادی کو مٹانے کا مطالبہ کر کے فسادات بھڑکا چکا ہے۔
ڈیوڈ بین زیون، مغربی کنارے کی 35 غیر قانونی بستیوں کی شمرون ریجنل کونسل کے رہنما ہیں جنہوں نے اس سال فلسطینی گاؤں حوارا کو “مٹانے” کا مطالبہ کیا۔
فلسطینیوں کے لیے اجتماعی سزا کا مطالبہ کرنے والے انتہاپسند یہودی کی یہ سرگرمی اسرائیلی میڈیا میں نمایاں رہی اور فلسطینی گاؤں کو فوراً تباہ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
Perhaps unsurprisingly, this explicit (and answered) call to violence was 'liked' by @bezalelsm pic.twitter.com/5LAVZHykh7
— Judah Ari Gross (@JudahAriGross) February 26, 2023
بین ڈیوڈ کی ٹویٹ کو ٹویٹر پر اسرائیل کے اس وقت کے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے ‘پسند’ کیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بھی اس مہم کو خطرناک قرار دیا تھا تاہم اس کے باوجود حوارا گاؤں اس وقت بن ڈیوڈ کی نگرانی میں کام کرنے والے اسرائیلی آباد کاروں کے ذریعہ پرتشدد فسادات کا نشانہ بنا۔ اس دوران قصبے پر آباد کاروں کے حملے میں متعدد گھروں اور گاڑیوں کو نذر آتش اور مقامی افراد کو زخمی کیا گیا۔ حماس نے اس حملے کو ’اعلان جنگ‘ قرار دیا تھا۔
حوارا نامی فلسطینی گاؤں کو اجتماعی سزا دینے کا بن ڈیوڈ کا مطالبہ پہلا اور آخری نہیں تھا۔ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے بار بار جنگی جرائم کا ارتکاب کرتا اور فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے بیدخل کرنے کی مہم چلاتا رہا۔
2016 میں ایسی ہی ایک پوسٹ میں بین ڈیوڈ نے ’فلسطینیوں‘ کو ’دشمن‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’ان کے وحشیانہ ڈی این اے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔‘
2021 میں یہودیوں کی حامی یہودی ہوم پارٹی کے ساتھ اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ) کے لیے اپنی ناکام انتخابی مہم کے دوران، بین ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ ’میں صیہونیت کے سیاسی گھر کی بحالی کے کام کے لیے پرعزم ہوں۔‘
اسرائیل کی طرف سے غزہ کے خلاف 50 روزہ بمباری کے آپریشن پروٹیکٹیو ایج شروع کرنے کے چند دن بعد، جس میں تقریباً 1500 فلسطینی شہری ہلاک ہوئے، بین ڈیوڈ نے فیس بک پر اپنی اور ساتھی آئی ڈی ایف فوجیوں کی تصویر پوسٹ کی جس میں توپ خانے کے گولوں سے صیہونی نعرے لکھے گئے تھے۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک غزہ میں 1500 سے زائد شہادتیں ہو چکیں جب کہ زخمیوں کی تعداد ساڑھے 6 ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔
اسرائیل نے غزہ کے لیے پانی، بجلی اور خوراک وادویات کی سپلائی منقطع کر دی ہے جس کے بعد 23 لاکھ افراد کے مسکن میں گزشتہ شب اندھیرے نے ڈیرے ڈالے رکھے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس عمل کو جنگی جرائم سے تعبیر کرتے ہوئے ایسا نہ کرنے کا مطالبہ کیا لیکن اسرائیل کے عمل سے واضح ہے کہ اس نے اسے ذرہ برابر اہمیت نہیں دی ہے۔
دوسری جانب امریکا اور برطانیہ نے اسرائیل کی مدد کے لیے اپنے جنگی بحری جہاز اور طیارے اسرائیل پہنچائے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ اینتونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن بھی اسرائیل پہنچے ہیں۔