حکومت نے پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت لاپتا افراد کے 40 میں سے 18 کیسز کے حوالے سے رپورٹ جمع کرادی۔
لاپتا افراد سے متعلق کیسز کی سماعت چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 40 کیسز میں سے 18 کی رپورٹ آئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 2 لاپتا افراد گھروں کو واپس پہنچ گئے جبکہ ایک انٹرنمنٹ سینٹر میں ہے۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ لاپتا افراد سے متعلق جتنے کیسز ہیں ان میں جواب جلد جمع کروائیں۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ افراد پولیس کے پاس ہوں یا نہ ہوں جواب جمع کریں تاکہ یہ لوگ بھی مطمئن ہوں اور جو قانونی راستہ ہے وہ یہ اختیار کریں
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ کچھ کیسز سنہ 2017 کے ہیں وہ بھی زیرالتوا ہیں۔ سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکلا نے استفسار کیا کہ جو لاپتا افراد ان (اداروں) کے پاس نہیں ہیں ان کا کیا ہو گا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کا ایمان ہے کہ بغیر کسی خوف کے انصاف کریں گے۔ ’جو میں کروں گا دنیا اور آخرت میں اس کا ذمہ دار ہوں گا‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی تو اس کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔
عدالت میں موجود ایک عمر رسیدہ ماں نے فریاد کی کہ ان کا بیٹا 10 سال سے لاپتا ہے کیا وہ انہیں واپس مل جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کی کرسی پر میں لوگوں کی خدمت کے لیے بیٹھا ہوں قانون کے مطابق سب کے ساتھ انصاف ہوگا۔ جن کے خلاف آپ نے ایف آئی آر کرنی ہے آپ کرلیں میں آپ کے ساتھ ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اے جی صاحب ان کیسز میں جواب جمع کریں مزید اس کو لٹکانا نہیں چاہیے۔ ان کیسز میں دوسری تاریخ دینا بھی زیادتی ہے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آپ جواب جمع کریں جو ذمہ دار افسر ہوگا ہم اس کو بھی بلائیں گے۔ عدالت نے لاپتا افراد کیسز میں اٹارنی جنرل آفس سے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔