وفاقی حکومت نے یکم نومبر تک پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو وطن واپس جانے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ اس دوران ملک کے بیشتر حصوں سے افغان مہاجرین ایک جانب جہاں نکل مکانی کررہے ہیں وہیں ضلعی انتظامیہ اور حکومتی مشینری بھی غیر قانونی طور پر بسنے والے افغان شہریوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
نگران وزیر اطلاعات بلوچستان جان محمد اچکزئی کے مطابق ملک بھر میں مجموعی طور پر 11 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین مقیم ہیں جن میں سے بلوچستان میں 5 لاکھ 87 ہزار افغان مہاجرین مقیم ہیں، جن میں 3 لاکھ، 13 ہزار پی او آر رجسٹرڈ، 2 لاکھ، 74 ہزار افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز شامل ہیں۔
بلوچستان میں کاروبار میں ایک بڑی سرمایہ کاری افغان مہاجرین کی ہے
ایک سوال اس وقت زبان زد عام ہے کہ افغان مہاجرین کے انخلا کے بعد بلوچستان میں کاروبار پر کون سے اثرات مرتب ہونگے۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایوان سنت و تجارت کوئٹہ کے سیکریٹری جنرل محمد اشفاق نے کہا کہ بلوچستان میں کاروبار میں ایک بڑی سرمایہ کاری افغان مہاجرین کی ہے۔ تاہم غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے انخلا میں منفی اور مثبت دونوں اثرات مرتب ہونگے۔
مارکیٹ پر پڑنے والے اثرات
محمد اشفاق نے بتایا کہ بلوچستان کی مارکیٹ پر سب سے بڑا مثبت اثر یہ ہوگا کہ جیسے ہی ایک بڑی آبادی کا انخلا ہوگا ویسے ہی اشیا خورونوش کی طلب میں کمی اور رسد میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا ایسے حالات میں اشیا خوردونوش کی قیمتوں میں واضح کمی واقع ہوگی جس سے عوام کو براہ راست ریلیف میسر ہوگا۔
اربوں روپے کا انخلا
دوسری جانب اگر بات کی جائے منفی پہلوؤں کی تو بلوچستان کے کاروبار میں بڑی سرمایہ کاری افغان مہاجرین کی ہے تاہم اگر افغان باشندوں کا مکمل انخلا ہو پاتا ہے تو مارکیٹ سے اربوں روپے کا بھی انخلا ہو جائے گا جس سے ایک ڈیڑھ سال تک کاروباری طبقہ بری طرح متاثر ہوگا۔
افغان مہاجرین ہر بڑے کاروبار سے منسلک ہیں
ایوان سنت و تجارت کوئٹہ کے سابق صدر فدا حسین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان میں افغان مہاجرین ہر بڑے کاروبار سے منسلک ہیں۔ مہاجرین نے زمین، دکانوں، پلازوں، خشک میوہ جات، مصالحہ جات کی درآمد و برآمد، پھلوں سبزیوں اور گوشت کی خرید و فروخت،ہوٹل انڈسٹری، الیکٹرانک اور تعمیراتی شعبے سمیت دیگر ہر قسم کی تجارت سے منسلک ہیں جبکہ مارکیٹ کی 70 فیصد سرمایہ کاری افغان مہاجرین کے ہاتھوں میں ہے۔
مزید پڑھیں
صوبے میں بھی سرمایہ کاروں کی کمی نہیں
فدا حسین نے بتایا کہ افغان باشندوں کے انخلا سے مقامی مارکیٹ کو یک دم ایک بڑا جھٹکا تو لگے لگا لیکن صوبے میں بھی سرمایہ کاروں کی کمی نہیں جس سے یہ خلا جلد پُر کر لیا جائے گا۔ اس وقت صوبے میں تعلیم یافتہ افراد بے روزگاری ہیں جیسے ہی مارکیٹ میں خلا پیدا ہوگا فوراً اس موقع کو مقامی سرمایہ کار ہاتھوں ہاتھ اپنانے گا۔
چھوٹے سرمایہ کار کی پریشانی میں اضافہ
افغان مہاجرین کے انخلا سے جہاں بڑے سرمایہ کار خوش دکھائی دیتے ہیں وہیں چھوٹے کاروباری پریشانی میں مبتلا ہیں۔ داؤد پراچہ جو برآمدات و درآمدات کے کاروبار سے منسلک ہیں انہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کی آبادی میں ایک بڑا حصہ افغان مہاجرین کا بھی ہے۔ جو روزانہ کی بیناد پر اشیا ضروریات کی خرید و فروخت کرتے ہیں ایسے میں طلب میں کمی واقع ہوگی تو چھوٹے سرمایہ کار کی پریشانی میں اضافہ ہوگا۔
ادویات کی انڈسٹری پر منفی اثرات
میڈیکل اسٹور کے کاروبار سے منسلک شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر 4 سے 5 ہزار افغان مہاجرین کوئٹہ کے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے آتے ہیں ایسے میں یہ مریض بڑے پیمانے پر ادویات کی خریداری کرتے ہیں، تاہم مہاجرین کے انخلا سے جہاں پرائیویٹ ہسپتال ویران ہو جائیں گے وہیں ادویات کی انڈسٹری پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے۔
اس وقت بلوچستان کے کاروبار حلقوں میں مہاجرین کے انخلاء کے بعد ہونے والے کاروباری اثرات پر مختلف آرا موجود ہیں تاہم اس سوال کا جواب صرف وقت ہی دے پائے گا۔