شعبہ زراعت اور ریئل اسٹیٹ کو باقاعدہ ٹیکس نیٹ میں لانا کیوں ضروری ہے؟

ہفتہ 14 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ورلڈ بینک نے زور دیا ہے کہ پاکستان ناصرف ٹیکسوں پر دی گئی چھوٹ ختم کرے بلکہ زراعت، ریئل اسٹیٹ اور ریٹیل کاروبار کو بھی مؤثر ٹیکس نیٹ میں لائے تاکہ ٹیکس کلیکشن کو بہتر کیا جاسکے۔

ٹیکس ریونیو کلیکشن خطے میں سب سے کم

ورلڈ بینک کے پالیسی نوٹ کے مطابق  پاکستان کا ٹیکس ریونیو کلیکشن خطے میں سب سے کم ہے، جب کہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر ٹیکس کی شرح سب سے زیادہ ہے،  جس کی اہم وجہ  زراعت، ریئل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر کے لیے مؤثر ٹیکس کا نظام نہ ہونا اور اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہ کرنا ہے۔

مالی سال 2022 میں پاکستان کی ٹیکس وصولیاں جی ڈی پی کا صرف 10.4 فیصد رہی ہیں۔ جبکہ گزشتہ دہائی میں یہ اوسط 12.8 فیصد رہی جو کہ جنوبی ایشیا کی 19.2 فیصد کی اوسط سے کہیں کم ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مجموعی وصولیاں بھی کم ہو رہی ہیں۔

ٹیکس ریونیو میں زراعت کا حصہ ایک فیصد

زراعت ہماری معیشت کا سب سے بڑا شعبہ ہے، جس کا جی ڈی پی میں تقریباً 20 فیصد حصہ ہے لیکن ملک کے ٹیکس ریونیو میں اس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اسی طرح ریئل اسٹیٹ کا بھی ٹیکس ریونیو میں حصہ بہت کم ہے۔

ورلڈ بینک کی حالیہ سفارشات کے مطابق ریئل اسٹیٹ اور زراعت سے جی ڈی پی کا  بالترتیب  2 فیصد اور ایک فیصد ریونیو حاصل کیا جانا چاہیے۔ جوکہ ریئل اسٹیٹ سے 2.1 ٹریلین روپے جبکہ زراعت سے 1 ٹریلین روپے بنتے ہیں۔

ورلڈ بینک کے مطابق ریئل اسٹیٹ اور زراعت سے منسلک لوگوں کے پاس غیر ادا شدہ ٹیکس کی حامل دولت سب سے زیادہ ہے۔ صوبوں کو ان سے ٹیکس اکٹھا کرنے کے اقدامات کرنا چاہییں تاکہ مرکز پر بوجھ کم ہو سکے۔ ان دونوں شعبوں سے ٹیکس اکٹھا کرنا 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کی ذمہ داری ہے۔

ٹیکس لگانے اور اکٹھا کرنے میں رکاوٹیں

پاکستان میں زراعت، ریئل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر پر ٹیکس لگانے کے حوالے سے بحث جاری رہتی ہے کہ ان  کا شعبوں کا ٹیکسوں میں حصہ کیوں کم ہے اور ان سے اس طریقے سے ٹیکس وصولی کیوں نہیں ہوتی جس طرح سیلری کلاس سے ہوتی ہے؟

اس حوالے سے کچھ عرصہ پہلے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے خیالات سامنے آئے تھے کہ  کیسے سیاسی فائدوں کے لیے مختلف شعبوں پر ٹیکس لگانے اور اکٹھا کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔

ایم این اے نہیں رہیں گے تو یہ حکومت بھی نہیں چل سکے گی

شبر زیدی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ چیئرمین ایف بی آر تھے اور  انہوں نے زراعت پر ٹیکس کا ایک نوٹس جاری کیا تو تقریباً 40 کے قریب ایم این ایز جن کا تعلق حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں سے تھا، ان کے پاس آئے اور ٹیکس نوٹس واپس لینے کا تقاضا کیا۔

شبر زیدی کے مطابق انہوں نے ان دونوں شعبوں پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو کیسے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ان کو بلا کر اس سے منع کیا۔

پاکستان زراعت اور ریئل اسٹیٹ سے ٹیکس اکٹھا کیوں نہیں کر پاتا؟

اس وقت جب پاکستان مشکل معاشی حالات کا شکار ہے اور حکومت مالی خسارے سے دوچار ہے تو سوال یہ ہے کہ پاکستان ان دو شعبوں سے وہ ٹیکس کیوں اکٹھا نہیں کر پا رہا جو ان شعبوں کو ادا کرنا چاہیے، حالانکہ ایف بی آر خود کئی دفعہ یہ نشاندہی کرچکی ہے کہ یہ شعبے اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔

ماہرین معیشت کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ یہ دونوں شعبے ٹیکس نیٹ کے اندر نہیں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان شعبوں سے ٹیکس وصولی کے لیے اس طرح سے کوشش نہیں کی جارہی جس طرح ہونی چاہیے۔

ریئل اسٹیٹ اور ٹیکس کا نظام

پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے جس شعبے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری اور لیں دین ہوا وہ ریئل اسٹیٹ کا شعبہ ہے۔ پورے پاکستان میں زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائیٹز بنیں اور اس شعبے نے لوگوں کو راتوں رات کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ لیکن اس شعبے کا پاکستان کی ٹیکس کلیکشن میں حصہ بہت معمولی رہا۔

ورلڈ بینک کے مطابق ریئل اسٹیٹ سے جی ڈی پی کا 2 فیصد ریونیو حاصل کیا جانا چاہیے جوکہ 2.1 کھرب روپے بنتا ہے۔

2 چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف دویلپمنٹ اکنامکس سے وابستہ محمود خالد کے مطابق ریئل اسٹیٹ میں ٹیکس کے حوالے 2 چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے ایک پراپرٹی ٹیکس ہے جو کہ صوبائی مینڈیٹ ہے۔ بنیادی طور پر مقامی حکومت کا مینڈیٹ ہے جو اس وقت پورے پاکستان میں اتنا زیادہ رائج نہیں ہے اس لیے صوبے پراپرٹی  ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں۔ لیکن پراپرٹی ٹیکس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اثاثہ جات کی قیمتوں سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس میں بہت سی چھوٹیں ہونے کے ساتھ ساتھ انڈررپورٹنگ کے بھی مسائل ہیں۔

دوسرا بہت سی جگہوں پر اس پراپرٹی ٹیکس کے لاگو ہونے کے حوالے سے بھی ابہام ہے اور اگر کوئی اصلاحات کرنی ہیں تو ان سب چیزوں کو مد نظر رکھنا ہو گا۔

دوسری طرف وفاقی ٹیکس کے نقطہ نظر سے ریئل اسٹیٹ ٹیکسیشن یہ ہے کہ لین دین تو ہو رہا ہے لیکن اس سے اتنا ٹیکس اکٹھا نہیں ہو رہا جتنا کہ ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے ایف بی آر نے 7 ای سیکشن آف ود ہولڈنگ ٹیکس متعارف کروایا ہے لیکن بدقسمتی اس کا بھی کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آرہا۔

ٹیکس کلیکشن کو بڑھایا کیسے جا سکتا ہے؟

محمود خالد کے مطابق ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کو مزید ڈاکومنٹ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ یہ شعبہ زیادہ ڈیجیٹائز ہو جائے۔

ہر قسم کی جائیداد کا لین دین ایک ہی آن لائن پلیٹ فارم سے ہونا چاہیے۔ جو بھی پلاٹ یا پراپرٹی  فروخت ہونی ہو سب کے لیے دستیاب ہو اور اس پلیٹ فارم پر اس کی بولی لگے۔ اس طرح اس جائیداد کی اصل قیمت کا تعین ہو سکے گا اور اسی حساب سے ٹیکس بھی جمع ہو سکے گا۔

اس وقت ایف بی آر ویلیویشن سے ہم یہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ  مارکیٹ میں ہونے والے حقیقی لین دین کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ جس کی وجہ سے ٹیکس کم جمع ہو رہا ہے۔

ڈیجیٹائزیشن کے ساتھ ساتھ محمود خالد سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے ایسا بل بھی پاس کیا جانا چاہیے کہ اگر کسی جائیداد کو بیچتے وقت کسی قیمت کا تعین کیا گیا ہے اور حکومت سمجھتی ہے کہ اسے یہ جائیداد خریدنے لینی چاہیے تو مارکیٹ میں ٹیکس بچانے کے لیے جائیداد کی جو کم قیمت دکھائی جاتی ہے، اُسے روکنے کے لیے حکومت اس جائیداد کو تجویز کردہ قیمت سے کچھ زیادہ پیسوں میں خود خرید لے۔ اس طرح جائیداد کی کم قیمت دکھانے اور ٹیکس بچانے کے معاملے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

محمود خالد کے مطابق ان اقدامات سے 200 سے 300 ارب روپے پراپرٹی ٹیکس کی مد میں زیادہ اکٹھے کئے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ

زراعت ہماری معیشت کا سب سے بڑا شعبہ ہے۔ جس کا جی ڈی پی میں تقریباً 20 فیصد حصہ ہے جبکہ لیبر فورس سروے کے مطابق زراعت کے شعبے میں روزگار کا حصہ 37.4 فیصد ہے۔ یہ شعبہ معیشت کے دیگر شعبوں بالخصوص صنعتی شعبے کو خام مال کی فراہمی کا کلیدی ذریعہ ہے، لیکن ملک کے ٹیکس ریونیو میں اس شعبے  کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

ورلڈ بینک کی حالیہ سفارشات کے مطابق زراعت سے جی ڈی پی کا ایک فیصد ریونیو حاصل کیا جانا چاہیے جوکہ 1 ٹریلین روپے بنتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی انہی سفارشات کے مطابق پاکستان کو زراعت کے حوالے سے اپنے ٹیکس کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور پاکستان کو فوری طور پر مزید زرعی اراضی کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے موجودہ 12.5 ایکڑ کی ٹیکس چھوٹ کی حد کو کم کرنا چاہیے۔

حکومت مالی خسارے سے دو چار ہے

اس وقت جب پاکستان مشکل معاشی حالات کا شکار ہے اور حکومت مالی خسارے سے دو چار ہے تو سوال یہ ہے کہ پاکستان زراعت سے وہ ٹیکس کیوں اکٹھا نہیں کر پا رہا جو اس شعبے کو ادا کرنا چاہیے حالانکہ ایف بی آر خود کئی دفعہ یہ نشاندہی کی ہے کہ یہ شعبہ اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔

محمود خالد کے مطابق زرعی شعبے سے کبھی بھی 2 ارب سے زیادہ ٹیکس کی مد میں وصولی نہیں ہوئی۔ جبکہ  وفاقی سطح پر جمع کردہ ٹیکس ریونیو  ساڑھے 6 کھرب سے زائد ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ زراعت کا شعبہ کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے جس کا جی ڈی پی میں حصہ 20 فیصد سے زائد ہے۔

محمود خالد سمجھتے ہیں کہ زراعت سے ٹیکس وصولی میں ناکامی کی 2 بنیادی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک تو پالیسی سے متعلق ہے جبکہ دوسری کا تعلق سیاست سے جُڑا ہے۔

 وہ کہتے ہیں میرے خیال میں  پالیسی سطح پر زراعت سے ٹیکس وصولی وفاقی سطح پر ایف بی آر کو کرنی چاہیے نہ کہ صوبوں کو، جیسا کہ اس وقت ہو رہا ہے اور پچھلے چیئرمین ایف بی آر نے صوبائی ریونیو اتھارٹیز کو اس حوالے سے کہا بھی تھا کہ ایف بی آر یہ ٹیکس اکٹھا کر کے صوبوں کو منتقل کر سکتا ہے لیکن صوبوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت مسئلہ سیاسی اور پالیسی لیول دونوں جگہوں پر ہے۔ ایک ایسا اختیار جو ایف بی آر کو ہونا چاہیے تھا وہ صوبوں کو دے دیا گیا ہے۔

صوبوں کو اپنی آمدن میں اضافہ کرنا ہو گا

دوسری طرف لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے وابستہ  ڈاکٹر علی حسنین یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایسا نظام بنانے میں ناکام رہے ہیں جہاں صوبے اس ضرورت کو محسوس کریں کہ ان کو اپنے ٹیکس اکٹھے کرنے ہوں گے۔18ویں ترمیم کے بعد زراعت  سے ٹیکس وصولی صوبوں کا اختیار ہے لیکن ہم ایسا نظام تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں جہاں صوبے اس ضرورت کو محسوس کریں کہ انہیں اپنے ٹیکس اکٹھا کرنے ہوں گے اور اپنی آمدن میں اضافہ کرنا ہو گا۔ ہم 18ویں ترمیم میں اختیارات کی مکمل منتقلی کرنے میں ناکام رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صوبے ٹیکس وصولی اور آمدن بڑھانے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔

پاکستان کتنا ٹیکس زراعت سے اکٹھا کر سکتا ہے؟

خالد محمود سمجھتے ہیں کہ پاکستان زراعت سے ٹیکسوں کی ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 سے 50 ارب اضافی اکٹھے کر سکتا ہے۔ زراعت کا پاکستان کی جی ڈی پی میں 20 فیصد کے قریب حصہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہماری ٹیکس اکٹھا کرنے کی استعداد میں بہتری لائی جائے تو ہم 40 سے 50 ارب تک مزید ٹیکس اکٹھا کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر علی حسنین، محمود خالد کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ زراعت کے شعبے سے ٹیکس وصولیوں کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر علی حسنین  کے مطابق پاکستان کے نصف سے زیادہ غریب دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اس لیے ہم زراعت سے ٹیکس کو 20 فیصد تو نہیں لے کے جا سکتے، لیکن ایسے زمیندار جن کے پاس 25 ایکڑ سے زائد یا کم از کم 50 ایکڑ زمین ہے ان سے 5 سے 8 فیصد تک ٹیکس ضرور وصول کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ہمیں بارانی اور نہری زمینوں کے حوالے سے مختلف ٹیکس پالیسی بنانے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمارے پاس ایکولوجیکل زونز کے متعلق معلومات بھی موجود ہیں اور ہم یہ پالیسی اگر ہم چاہیں تو بنا سکتے ہیں۔

زراعت میں سرمایہ کاری کرنے کی بھی ضرورت ہے

ڈاکٹر علی حسنین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت زراعت میں سرمایہ کاری کرنے کی بھی ضرورت ہے۔  ہمیں زرعی تحقیق، آبپاشی کی نہروں کو ٹھیک کرنے، کوالٹی کنٹرول سروسز میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی پیداوار کو بڑھایا جا سکے کیونکہ پاکستان اس طرح اپنی برآمدات بڑھا سکتا ہے اور اس شعبے سے مزید ٹیکس اکٹھا کر سکتا ہے۔

پاکستان اس وقت جس طرح کے معاشی حالات سے گزر رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام شعبوں سے ٹیکس اکٹھا کرنے کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے اور ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر کیا جائے نہ کہ ان ہی لوگوں پر جو کہ پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp