غزہ ننھے بچوں کا مدفن

ہفتہ 14 اکتوبر 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شاعر فاضل جمیلی نے کئی برس قبل فلسطینیوں پر ڈھائے جا رہے مظالم پر ایک منظوم نوحہ ’عالمی مقتول‘ لکھا تھا، جس کے یہ مصرعے موجودہ صورتحال کے بھی عکاس ہیں

کوئی یہاں سے پرے بھی ہے جشن میں شامل
جو میرے خون کو پیتا ہے اور جیتا ہے
مگر لہو کے نشے میں یہ بھول بیٹھا ہے
کہ زخم کھا کے فلسطین ہوگیا ہوں میں

محدود رابطے، ناکافی خوراک، بچوں کی ادھوری لاشیں، خوفزدہ والدین اور مشرق وسطیٰ کا خونی تنازع ۔ یہ سب ایک ڈراؤنا خواب معلوم ہوتا ہے جس کی تعبیر بھی بہت بھیانک نظر آتی ہے۔ والدین بچوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں، ہر کوئی کہتا نظر آتا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ میں اپنے پیاروں کو دوبارہ زندہ نہیں دیکھ سکوں گا، غزہ کھنڈر میں بدل چکا ہے، لوگ خوفزدہ ہیں کہ نہ جانے آگے کیا ہوگا؟

وہ منظر بھی سامنے آیا جس میں ماں تڑپتے ہوئے اپنے بچے کو آخری بوسہ دے رہی ہے، باپ اپنے ننھے بچے کی لاش کو کاندھے سے لگا کر تھپک رہا ہے، چھوٹے بچےخوف سے چیخ رہے ہیں اوراپنے ماں، باپ، بہن ،بھائیوں کی لاشوں پر غم سے نڈھال ہیں کہ اب اس دنیا میں ان کا کوئی نہیں رہا۔ اب تک جتنی تصاویر اور ویڈیوز آئی ہیں ایسا لگتا کہ غزہ بچوں کا مدفن بن رہا ہے۔ اسرائیلی فرعون کسی بچے کو زندہ دیکھنا نہیں چاہتا کہ کہیں وہ بچہ بڑا ہو کر اس کے لیے موسیٰ نہ بن جائے۔ نہ ان کو کسی بچے کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں اور نہ والدین کی دہائی۔ ہر طرف صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔

انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے ایسے ہی ایک فلسطینی بچے کے لیے لوری لکھی تھی

مت رو بچے
رو رو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابا نے اپنے غم سے رخصت لی ہے
مت رو بچے
تیرا بھائی اپنے خواب کی تتلی پیچھے
دور کہیں پردیس گیا ہے

بے گناہ شہریوں پر مصائب اور ظلم و ستم کے یہ مناظر پہلی بار سامنے نہیں آئے بلکہ جب سے ہم نے آنکھ کھولی ہے وقتاً فوقتاً ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں خون سے لت پت بے سہارا بچے اور تڑپتے والدین غم کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں، بچوں کی پکار ہے کہ کلیجہ چیر جاتی ہے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خون کا پیاسا ہے جو اسی طرح اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے مظلومین کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔

او آئی سی اور عالم اسلام بھی اسرائیل کی اس بربریت کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اس خونی جنگ میں کچھ عرصے کے لیے خاموشی آتی ہے لیکن پھر طوفان برپا ہوتا ہےاور امت مسلمہ خواب خرگوش سے اس وقت جاگتی ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اس کے بعد صرف مذمت، لفظوں کا جال، صبر و تحمل کی تلقین، فلسطینیوں کے حق اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہی ہوتے ہیں۔

مسلم ممالک حمایت تو کرتے ہیں لیکن صرف زبانی کلامی جبکہ باقی پوری دنیا سب کچھ جانتے اور بوجھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کیے ہوئے نہ صرف تماشا دیکھ رہی ہے بلکہ اسرائیل کو مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروا رہی ہے۔اور امتِ مسلمہ کی عوامی ریلیاں اسرائیل کو غزہ پر حملوں سے باز نہیں رکھ سکتیں۔ اسلامی ممالک کی جانب سے فلسطین کی اخلاقی حمایت صرف بیانات تک ہی محدود ہے۔ یہ سفارتی، سیاسی اور معاشی حمایت میں آخر کب تبدیل ہوگی؟

مغربی ممالک جو یوکرین پر روس کے حملے کو نہ صرف یورپ پر حملہ بلکہ جمہوری دنیا پر حملہ قرار دے رہے ہیں وہ فلسطین اور اسرائیل کی صورتحال میں اب الٹ دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔ امریکا جو اسرائیل کا سہولت کار اور پشت پناہ ہے اس کی محبت میں اس حد تک گرفتار ہوچکا ہے کہ ان کے حق میں فیک نیوز کا سہارا تک لیا۔

مشرق وسطیٰ کے اس طویل اور خونی تنازعے کو دہائیاں گزر چکی ہیں جس کا مستقبل قریب میں بھی کوئی مستقل حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ مسئلہ فلسطین کے حل کےلیے عالم اسلام کا کردار بھی قابل مذمت ہے۔ عرب ممالک جن سے فلسطینیوں کو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور جس مسلم دنیا کی حمایت کے منتظر تھے اب تو وہ بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات، اور اسے تسلیم کرنے کا ارادہ کرتے نظر آتے ہیں۔

حالات نا قابل یقین حد تک مشکل ہوتے جا رہے ہیں اور ایسے میں لگتا ہے اسرائیل سمیت عالمی برادری نے طے کر رکھا ہے اس سلسلے کو تب تک جاری رکھا جائے گا جب تک مکمل خاموشی نہیں چھا جاتی۔ آج فلسطین جل رہا ہے اورفلسطینی اپنی ہی سرزمین پر دربدر ہیں۔ فلسطینیوں کی نسل کشی آخر کب تک جاری رہے گی۔ اس کے لیے امت مسلمہ سمیت پوری دنیا کو متحد ہو کر آواز اٹھانا ہوگی اور فلسطینیوں کی مدد کے لیے مشترکہ اور فوری لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا تاکہ مزید چراغوں کو بجھنے سے روکا جا سکے۔ ورنہ ایک نئی عالمی جنگ کے خطرات منڈلاتے نظر آتے ہیں جو کسی طور امنِ عالم کے لیے نیک شگون نہیں۔

اسرائیلی بربریت کی چنگاری خوفناک آگ بننے کو ہے، کیا اقوام عالم بالخصوص امتِ مسلمہ مذمتی بیانات سے بڑھ کر اپنا حقیقی کردار ادا کرے گی یا پھر غزہ ہمیشہ کے لیے ننھے بچوں کا مدفن بن جائے گا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp