’میں وِلی ہوں، میری دَھاڑ سنو‘ یہ کہنا تھا وِلی نامی شیر کا جو 1966 میں انگلینڈ میں منعقدہ عالمی فٹبال کپ کا مسکوٹ (Mascot) تھا۔ شیر (Willie) نے یونین جیک جرسی پہنی ہوئی تھی جس پر ’ورلڈ کپ‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ فیفا ورلڈ کپ ہی نہیں، کھیلوں کے کسی بھی عالمی مقابلے سے منسلک پہلا مسکوٹ (پُتلا) تھا۔
فیفا کا کہنا ہے کہ 1966 میں پورے انگلینڈ میں وِلی ایک ہائی پروفائل کردار تھا جو ہر عمر اور صنف کے فٹبال پرستاروں میں بے حد مقبول تھا۔ وِلی کی شہرت کا نشہ آج بھی فیفا کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔’لعيب‘ 2022 میں قطر میں ہوئے فیفا ورلڈ کپ کا 15واں آفیشل مسکوٹ تھا۔ عربی میں اس کا مطلب ’سپر اسکلڈ پلیئر‘ ہے۔
مسکوٹ (Mascot) ہوتا کیا ہے؟
مسکوٹ (Mascot) عام طور پر کسی جانور، شے یا کردار کا بنایا گیا پتلا ہوتا ہے، جو کسی بڑے ایونٹ یا ٹورنامنٹ کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے کسی خاص تنظیم یا واقعہ سے بھی منسلک کیا جا سکتا ہے۔ عالمی مقابلوں میں مسکوٹ کا ڈیزائن میزبان ملک کی خاصیت یا علامت کی نمائندگی کرتا ہے، جیسے نباتات، حیوانات، یا لباس وغیرہ۔ مسکوٹ کا ہدف نوجوان نسل ہوتی ہے جسے کھیل کی جانب راغب کرنے کے لیے مسکوٹ تیر بہدف فارمولہ اور آزمودہ نسخہ ہے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے مسکوٹ کی روایت کب اور کیوں اپنائی؟
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے فیفا کی طرح مستقل ٹرافی کی روایت اپنانے سے قبل مسکوٹ کا نسخہ بھی آزمانے کا فیصلہ کیا اور 1992 میں ’ٹویزا‘ نامی مسکوٹ کا ڈول ڈالا لیکن 2011 کا ورلڈ کپ ’سٹمپی‘ نامی مسکوٹ والا آخری کرکٹ میلہ تھا۔ کیونکہ ورلڈ کپ مسکوٹس کا سلسلہ 2015 اور 2019 کے ایڈیشنز میں عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا، پھر 2023 کے ایڈیشن میں مسکوٹ دوبارہ متعارف کرایا گیا ہے۔
آئی سی سی کے ہیڈ آف ایونٹس کرس ٹیٹلی مسکوٹ بارے کیا کہتے ہیں؟
آئی سی سی کے ہیڈ آف ایونٹس کرس ٹیٹلی کا کہنا ہے کہ مسکوٹ کرکٹ میں انرجی، جوش، جذبے اور شائقین کو اس کھیل سے بے پناہ لگاؤ کی ترجمانی کرتے ہیں، مسکوٹ مردوں اور خواتین میں صنفی برابری کو فروغ دینے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسکوٹ، دائمی کردار، ثقافتوں اور سرحدوں سے بالاتر ہو کر کرکٹ کی عالمگیر کشش کے عکاس ہیں۔ کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں مسکوٹس اتحاد اور جذبے کے مینار کے طور پر کھڑے ہوتے ہیں۔ دونوں صنفوں کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ، وہ دنیا میں صنفی مساوات کے اہم کردار کی علامت ہیں۔
کرس ٹیٹلی کہتے ہیں ’آئی سی سی کی کرکٹ شائقین کی آئندہ نسل سے ربط قائم کرنے کی ترجیحات کے مطابق مسکوٹ نوجوانوں کو مشغول رکھنے اور تفریح فراہم کرنے کا وسیلہ ہیں، جن سے آئی سی سی ایونٹس کے علاوہ کھیل کے لیے زندگی بھر کی محبت کو فروغ ملتا ہے۔‘
آئی سی سی کے ہیڈ آف ایونٹس کرس ٹیٹلی کا کہنا تھا کہ ہم آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ 2023 سے قبل آئی سی سی مسکوٹ کی جوڑی لانچ کرنے پر بہت خوش ہیں۔
کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے آفیشل مسکوٹس؟
آئی سی سی نے 19 اگست 2023 کو انڈیا کے شہر ’گروگرام‘ میں بھارتی انڈر 19 ورلڈ چیمپئنز کپتانوں یش دھل اور شفالی ورما کے ذریعے ورلڈ کپ 2023 کے مسکوٹ کی جوڑی کی رونمائی کی تھی۔ شائقین کرکٹ کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ 27 اگست 2023 تک ان دونوں کے نام منتخب کریں۔ بتایا گیا تھا کہ دونوں مسکوٹ ورلڈ کپ میں مرد و خواتین کی نمائندگی کریں گے۔
آئی سی سی نے 30 ستمبر 2023 کو 2023 کرکٹ ورلڈ کپ کے آفیشل مسکوٹس کے ناموں کا اعلان کیا تھا ’بلیز اور ٹونک‘۔ مسکوٹ مرد اور عورت کی جوڑی ہے جو ’کرکٹوورز‘ نامی افسانوی کرکٹ یوٹوپیا کے کردار، صنفی مساوات اور تنوع کی علامت ہیں۔
مرد مسکوٹ بنیادی طور پر نیلے رنگ کا ہے جو اس کی صفر سے کم ٹھنڈک کے ساتھ ساتھ اس کی تیز بیٹنگ کی صلاحیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے برقی بلے کا استعمال کرتے ہوئے مختلف شاٹس سے ناظرین کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ کردار وراٹ کوہلی اور جوز بٹلر جیسے کھلاڑیوں سے متاثر ہے۔
خاتون مسکوٹ کے ٹربو پاور بازو ہیں جو بجلی کی رفتار سے بؤلنگ کرتی ہے۔ اس کے پاس ایک یوٹیلٹی بیلٹ بھی ہے جس میں مختلف گیندیں جَڑی ہیں جو بولر کی صلاحیتوں کے مختلف تغیرات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہ مسکوٹ جسپریت بمراہ اور ایلیسی پیری سے متاثر ہے۔ لیکن کرکٹ مسکوٹس کی کہانی شروع کہاں سے ہوئی تھی؟
کرکٹ ورلڈ کپ 1992: ’ٹویزا‘
آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں متعارف کرائے جانے والے پہلے مسکوٹ کا نام ’ٹویزا‘ رکھا گیا تھا۔ یہ کردار 1992 کے عالمی مقابلوں کے نئے اور اختراعی جذبے کا نمائندہ تھا۔ میگا ایونٹ میں پہلی بار رنگین جرسیوں اور سفید گیند کا استعمال عالمی سطح پر کھیل کے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کے لیے پہلا بڑا قدم تھا۔ پاکستان کے لیے یہ تاریخی عالمی کپ اس لیے بھی اہم ہے کہ 1992 کا ورلڈ کپ عمران خان کی قیادت میں پہلی بار پاکستان کے نام ہوا تھا۔
کرکٹ ورلڈ کپ 1996: ’گوگلی‘
’گوگلی‘ 1996 کے کرکٹ ورلڈ کپ کا آفیشل مسکوٹ تھا۔ ’گوگلی‘نے ٹورنامنٹ کی تشہیر کے لیے مجموعی طور پر مداحوں کی بھرپور توجہ حاصل کی تھی۔ کرکٹ کے جذبے کو فروغ دیا اور نوجوان شائقین کے لیے تفریح کا ذریعہ بنی جو کھیل سے دلی محبت رکھتے تھے۔
گوگلی ایک سرخ کرکٹ گیند تھی جس نے ہیلمٹ، دستانے اور سبز پیڈ پہنے ہوئے تھے۔ اس سے قطع نظر کہ ورلڈ کپ سفید گیند سے کھیلا گیا تھا۔ منتظمین کے مطابق بھارتی کمپنی تھامپسن ایسوسی ایٹس کا تیار کردہ ڈیزائن اپنے نام کا عکاس تھا۔
کرکٹ ورلڈ کپ 1999: ’ولو‘
1999 کے ایڈیشن میں ’ولو‘مسکوٹ کو متعارف کروایا گیا تھا۔ ’ولو‘ ایک گلابی گال والا لڑکا تھا جو ایک اور مسکوٹ ’یارکر‘ سے ملتا جلتا تھا جو ٹوپی پہنے صرف ایک سفید کرکٹ گیند تھی۔ اس کی تیاری کے لیے انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے رینبو پروڈکشنز کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس عالمی مقابلے سے کرکٹ ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے غلبے کا آغاز ہوا تھا۔
کرکٹ ورلڈ کپ 2003: ’ڈیزلر‘
ڈیزلر آئی سی سی ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے میسکاٹس میں سے ایک تھا۔ 2003 میں جنوبی افریقہ کی میزبانی میں ہونے والے ورلڈ کپ میں، ڈیزلر ایک کرکٹ کھیلنے والا زیبرا تھا، جس نے سبز پیڈ، دستانے اور سرخ شرٹ پہنر کھی تھی۔ جنوبی افریقہ میں جنگلی زندگی کی علامت ’ڈیزلر‘ میں سیاہ اور سفید پٹیاں تھیں، ڈیزائنر نیتھن ریڈی کے مطابق کرکٹ کھیلنے والے زیبرا نے سیاہ اور سفید فام لوگوں کے امتزاج اور جنوبی افریقہ کے ثقافتی تنوع کو اجاگر کرنے میں مدد کی تھی۔
اگرچہ ماضی کے ماسکوٹس کا کرکٹ کے ساتھ صرف عارضی تعلق تھا، لیکن پریس تصاویر میں ’ڈیزلر‘ کو وکٹ کیپر بولر، بلے باز اور یہاں تک کہ ایمپائر کے طور پر بھی دکھایا گیا تھا۔ مسکوٹس کی میچز میں کبھی کبھار ہی شرکت ہوتی تھی لیکن سنتھ جے سوریا کے ساتھ ہاتھ ملانا ’ڈیزلر‘ کی خاص بات تھی۔
کرکٹ ورلڈ کپ 2007: ’میلو‘
’میلو‘ ویسٹ انڈیز کی جانب سے متعارف کرایا جانے والا اور سب سے دلچسپ مسکوٹ تھا۔ ’میلو‘ ایک بھورے رنگ کا نیولا تھا جس کے ایک ہاتھ میں بلا تھا جبکہ دوسرے میں گیند تھی۔ اس نے کیریبین لباس پہن رکھا تھا اور ایچ آئی وی کی پھیلتی ہوئی وبا کے خلاف اپنی حمایت ظاہر کرنے کے لیے اپنی ہلکی نیلی شرٹ پر سرخ ربن بھی لگا رکھا تھا۔
کرکٹ ورلڈ کپ 2011: ’اسٹمپی‘
2011 کے ورلڈ کپ میں ’اسٹمپی‘ کو لانچ کیا گیا جو 10 سالہ کرکٹ کھیلنے والا ہاتھی تھا۔ مسکوٹ کھیل کی پرامن اور طاقتور روح کی عکاسی کرتا ہے۔ آئی سی سی نے ’اسٹمپی‘ کو کرکٹ سے محبت کرنے والے کردارکے طور پر پیش کیا تھا۔ جس میں ایک مثالی کرکٹر کی تمام اقدار موجود ہوں۔
آئی سی سی کا کہنا تھا کہ ہاتھی سخت محنت پر یقین رکھتا ہے اور ہمیشہ توجہ مرکوز کرنے اور مہارت حاصل کرنے کی جستجو میں رہتا ہے، ’اسٹمپی‘ کو نوجوان، پرجوش اور پرعزم بھی قرار دیا گیا تھا۔
کرکٹ ورلڈ کپ 2015 اور 2019 میں مسکوٹس کیوں نہیں بنائے گئے؟
2015 کا ورلڈ کپ مشترکہ طور پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی میزبانی میں کھیلا گیا تھا جبکہ 2019 کے عالمی مقابلوں کا میزبان انگلینڈ تھا لیکن دونوں ایڈیشنز میں مسکوٹ کی روایت کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور نوجوان شائقین کو مشغول اور راغب کرنے کے لیے دیگر طریقوں کو استعمال کرنے کو ترجیح دی تھی۔
منتظمین کا کہنا تھا کہ اس کے کوئی شواہد موجود نہیں کہ مسکوٹ نہ ہونے سے کسی بھی ٹورنامنٹ کی کامیابی متاثر ہوئی ہو جبکہ نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے ورلڈ کپ ٹرافی ٹور سے ہی بہت مدد ملتی ہے۔ مزید یہ کہ کھیلوں کے بڑے مقابلوں کی میزبانی جدید دور میں ہمیشہ کی طرح مہنگی ہے، لہٰذا اس طرح کے اخراجات فضول اور غیر ضروری ہیں۔