استاد حسین بخش گلو: لتا بھی جن کی فین تھیں

منگل 5 دسمبر 2023
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مجھے نہیں یاد میری حسین بخش گلو صاحب سے پہلی ملاقات کب ہوئی۔ یہ مجھے ضرور یاد ہے کہ میرے ماموں اقبال جب جرمنی سے اسی کی دہائی کے اوائل میں واپس آئے تو ان کے پاس اپنی پسند کی موسیقی کی بہت اچھی کولیکشن تھی۔ میں نے پہلی دفعہ حسین بخش کا نام انھی سے سنا۔ وہ خان صاحب کو بہت رغبت سے سُنتے تھے۔ میں چوں کہ دسویں جماعت پاس کرنے تک اپنے ننھیالی گاؤں میں ہی رہا۔ میوزک سُننے کے حوالے سے میری ابتدائی تربیت میں میرے مرحرم ماموں اقبال اور ان کی مرحومہ بیگم صاحبہ کا بنیادی کردار ہے۔

1999 سے ریڈیو لاہور میں آنا جانا شروع ہوگیا۔ خان صاحب کو دیکھا اور سنا ضرور تھا مگر ذاتی شناسائی تب ہوئی جب مجھے موسیقی کا شعبہ ملا۔

خان صاحب اپنے کام سے کام رکھنے والے بندے ہیں۔ پبلک ریلیشنگ ان کا مزاج نہیں۔ ان سے رسماً ملاقات ہوتی تھی۔ وہ شیڈول کے مطابق اپنی ریکارڈنگز کروا جاتے تھے۔ ہفتے میں دو تین بار ویسے ہی ریڈیو کا چکر لگا نے آتے،صاف سُتھرے لباس میں وہ اسپیشل رکشے میں آتے۔ کبھی کبھی سرِ راہ اور کبھی ریڈیو کینٹین میں ان سے ملاقات ہو جاتی۔

فوک گلو کار ریاض قادری جن کا گایا ہوا بُلّھے شاہ کا کلام “تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا” بہت مقبول ہوا۔ یہ کلام بہت سے فن کاروں نے اپنے اپنے انداز میں گایا ہوا ہے۔ ریاض قادری کی اس گائیکی کی ویڈیو شعیب منصور نے سپریم عشق کے نام سے بنائی۔ دراصل یہ سپریم چائے والوں کی کاوش تھی۔ “خدا کے لئے ” اور “بول” جیسی فلموں سے قبل شعیب منصور کی اس ویڈیو کی وجہ سے ریاض قادری کو بھی بہت شہرت ملی۔ مشہور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ ویڈیو کئی کئی مرتبہ مختلف ٹی وی چینلز پر چلتی۔

مجھے سوال کرنے کی چوں کہ عادت سی ہے۔ ایک دن میوزک سٹوڈیو میں بیٹھے بیٹھے میں ریاض قادری سے پوچھا اس وقت کلاسیکل موسیقی میں سب سے بڑا گویاّ کون ہے؟

ریاض قادری نے کہا کہ ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ لیکن حسین بخش گلو جیسا باریک اور مشکل گانے والا برِ صغیر پاک و ہند میں کوئی دوسرا نہیں۔ اے آر وائے ٹی وی میں آج کل انوسٹی گیشن سیل کے انچارج نعیم اشرف بٹ ان دنوں ریڈیو میں پروڈیوسر ہوا کرتے تھے۔ احمد رضا چیمہ، نعیم بٹ اور میں پٹیالہ ہاؤس لاہور ایک پرائیوٹ ہاسٹل میں روم میٹ تھے۔ نعیم اشرف ایک دفعہ باتوں باتوں میں بہت حیرانی سے بتانے لگےکہ میں تو حسین بخش کو سائیں سا بندہ سمجھتا تھا جو ایسے ہی ادھر ادھر پھرتا رہتا ہے۔ وہ تو بہت بڑا فن کار ہے۔ میں نے ایک بھارتی ٹی وی پر دیکھا تو ایک پروگرام میں سونو نگم حسین بخش گلو کے پاؤں چھو رہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا کہ آپ سے بہت سیکھا ہے آپ میرے استاد ہیں۔

حسین صاحب کے بیٹوں چاند اور سورج خان دونوں کو اے کیٹیگری سے ڈبل اے کیٹیگری دی۔ وہ دونوں بھی بہت سریلے گویےّ ہیں۔

مجھے علم ہوا کہ ان کو ابھی تک کوئی قومی ایوارڈ نہیں ملا تو بہت حیرانی ہوئی۔ بعد ازاں صدارتی ایوارڈ تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی مل گیا۔کئی بار ایسا ہوا کہ خان صاحب رکشے کے انتظار میں کھڑے ہیں تو ان کو لفٹ دے دی۔

ایک دفعہ مجھے سٹوڈیو ز کے کوریڈور میں ملے تو خیریت پوچھنے لگے۔ میں نے کہا ویسے تو خیریت ہے لیکن ہمارے ڈیرے سے کسی نے رات کو بھینس چوری کر لی ہے۔ بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے، گھمن صاحب آپ کا نقصان نہیں ہو سکتا۔ آپ کی بھینس واپس آجائے گی۔ میں دل میں ہنسا کہ خان صاحب بھولے بادشاہ ہیں یہاں تو لوگ ہاتھ سے لے کر دینے کے روا دار نہیں کہاں چوری شدہ بھینس واپس آئے گی۔ آپ یقین کریں کہ ایسا معاملہ ہوا کہ ایک دن چور خود آکے بھینس ہمارے ڈیرے پر باندھ کر گئے۔ ایک دفعہ خان صاحب میری دعوت پر سمبڑیال، سیال کوٹ بھی گانے کے لئے تشریف لائے۔ میرے گھر پر ہی وہ تیار ہوئے۔ اور محفل کے بعد میرے ہاں ہی قیام کیا۔ صبح دیسی ناشتہ کرکے بہت خوش ہوئے۔ خاص طور پر مکھن انھیں بہت پسند آیا۔

خان صاحب کو دنیا مانتی ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ایک ڈاکو مینٹری میں پاپ سنگر جواد احمد نے کہا “حسین بخش استادوں کے استاد ہیں۔” اسی طرح سونو نگم اپنے ایک وی لاگ میں موبائل فون پر خان صاحب کو سنتے ہوئے ساتھ گنگنا بھی رہے تھے۔ سونو نے کہا “مجھے جب بھی کبھی اچھا سننا ہوتا ہے تو میں حسین بخش صاحب کو سنتا ہوں۔ وہ بہت بڑے سنگر ہیں۔ بہت ریاضی ہیں۔ ان سے بہت سیکھا ہے۔ ”

حسین بخش صاحب کا ایک طویل ویڈیو انٹرویو تقریباً دو ڈھائی سال قبل میں نے ان کے گھر پر ریکارڈ کیا تھا۔جس میں انھوں نے بتایا کہ بہت سال قبل میں یش چوپڑاکی دعوت پر بھارت گیا تھا۔ وہاں ان کے گھر ایک دعوت کا انعقاد تھا۔ لتا جی کا پیغام آیا کہ وہ آدھے گھنٹے کے لئے آئیں گی۔ محفل جب شروع ہوئی تو وہاں لتا ،ان کی دو بہنوں آشا اوراوشا کے علاوہ بہت سے بڑے بڑے بھارتی فن کار جمع تھے۔ نرگس،سنیل دت،دلیپ صاحب، خیام صاحب ،آنند ،کلیان جی جیسے لوگ موجود تھے جن کے سامنے آکار کا آ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ جب گانا شروع ہوا تو لتا نو گھنٹے سُنتی رہیں۔ جب یش چوپڑا نے کہا “دیدی آپ گئی نہیں؟ ”

تو انہوں نے جواب دیا کہ “خان صاحب کا گانا ختم ہی نہیں ہوا ، ختم ہوتا تو میں جاتی”

چند سال قبل جب خان صاحب سونو نگم کی دعوت پر بھارت گئے تو سونو نے اپنے گھر خان صاحب کا گا نا سُننے کے لئے سریش واڈی کر ،جسوندر،ہری ہرن اور سکھویندر جیسے گلو کاروں کو بلوایا۔ استاد حسین بخش گُلو کا کہنا ہے کہ ان کا گائیکی میں پٹیالہ گھرانہ ہے جب کہ استاد غلام حیدر خان نے اپنے ایک کتابچے میں اس امر کی تصدیق کی ہے لیکن ان کا یہ کہنا ہے کہ حسین بخش کی گائیکی میں پٹیالہ اور شام چوراسی دونوں گھرانوں کا انگ جھلکتا ہے۔

خان صاحب گائیکی کی تمام اصناف کو گانے پر مہارت رکھتے ہیں۔ راگ،ٹھمری،دادرے،گیت غزل ، کافی اور فوک سب کچھ انھوں نے گایا۔ ساغر صدیقی کی لکھی ہوئی اور اُستاد حُسین بخش گلو کی گائی ہوئی غزل کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔

زندگی جبر ِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جُرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

ویسے تو ان کے گائے ہوئے اکثر آئٹم کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن ایک پنجابی آئٹم خاص و عام میں بہت مقبول ہے جسے انڈیا کے مقبول کامیڈین کپل شرما بھی ایک نجی محفل میں گاتے ہوئے سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں۔

“سوہنیے جے تیرے نال دغا میں کماواں”

خواجہ غلام فرید کی ” سانول موڑ مہاراں” استاد سلامت علی خاں سمیت کافی گلو کاروں نے گائی ہوئی ہے لیکن استاد حسین بخش کی آواز میں اسے سننے کی اپنی ہی چَسّ ہے۔

استاد حسین بخش 1944 میں گورداس پور میں استاد نتھو خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ والدین کے ساتھ لاہور آگئے۔ استاد سلامت خان ان کے بہنوئی تھے۔ استاد شفقت سلامت ان کے بھانجے اور داماد بھی ہیں۔ ان کے اپنے تین بیٹے ،شبیر ،سورج اور چاند خان بھی بہت عمدہ گاتے ہیں۔ سلامت ،نزاکت کی جوڑی جب علیحدہ ہوگئی تو حسین بخش استاد سلامت علی خان کے ساتھ گاتے رہے۔

آج کل استاد حسین بخش گلو صاحب بہت علیل ہیں۔ کوئی سمری 2 اکتوبر سے ان کی مالی امداد کے حوالے سے چلی ہوئی ہے۔ وہ ابھی چل ہی رہی ہے یا کہیں منزل پر پہنچنا بھی نصیب ہوا ہے معلوم نہیں۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے لئے کچھ بچا کر نہیں رکھتے؟

اگر فن کار اتنے بچانے والے ہی ہوں تو وہ پھر فن کار بنے ہی کیوں؟۔ دوسرا کوئی سرکار فن کاروں کی مدد کر کے احسان نہیں کرتی۔ دنیا بھر میں فن کار ملکی اثاثہ سمجھے جاتے ہیں۔ فن کار بیرونی دنیا میں اپنے ملک کے سفیر ہوتے ہیں۔

میں نے اپنے سامنے ایک محفل میں فریدہ خانم کو یہ کہتے سنا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ خان صاحب حسین بخش صاحب یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ ایسے گوہر اور نگینے روز پیدا نہیں ہوتے۔ دہائیاں بیت جاتی ہیں تو ایسا فن کا ر بنتا ہے۔

گزشتہ روز خان صاحب کے بیٹے چاند خان کا فون آیا۔ خان صاحب کے بارے میں جان کر تکلیف ہوئی۔ فوراً ٹو یٹ کیا کہ بعد میں تعزیت کرنے سے بہتر ہے کہ ابھی خان صاحب کی مدد کی جائے۔ رب بھلا کرے برادرم عمر چیمہ نے ری ٹویٹ کیا تو وزارتِ ثقافت میں کوئی ہل چل ہوئی۔ صوفی فاؤنڈیشن کے کرتا دھرتا سلمان صوفی نے پوچھا کہ ہم خان صاحب کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟

خدا نخواستہ استاد حسین بخش گلو کو کچھ ہوگیا تو دیکھیے گا کہ کیسے دن رات ان کا ذکر چلتا ہے مگر اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی کوئی خدمت کی جا سکتی ہے تو کی جائے۔ فن کار بہت خود دار ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کی خود داری کا پاس رکھنا چاہیے۔ وہ ہمارا ،اثاثہ ہیں۔ اپنے اثاثوں کی حفاظت کوئی بے خبر ہی نہیں کرتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp