اس ماہ کے پہلے ہفتے میں جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں سیکریٹری جنرل کے دفتر نے ایک سالانہ رپورٹ پیش کی ۔ جس کا عنوان ہے ’انسانی حقوق کے ضمن میں اقوامِ متحدہ کے نمائندوں سے تعاون کی صورتِ حال‘۔ اس رپورٹ کا دورانیہ یکم مئی 2022 تا 30 اپریل 2023 ہے۔
اس رپورٹ میں 40 ایسے ممالک کے بھی نام ہیں جہاں اقوامِ متحدہ کے نمائندوں اور ذیلی اداروں سے تعاون کی حوصلہ شکنی کے لیے ریاستی و غیر ریاستی سطح پر 220 شہریوں اور 25 مقامی تنظیموں کو تادیبی کارروائیوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ان 40 ممالک میں چین، روس، میانمار، بنگلا دیش، بھارت، افغانستان، ایران، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، یمن، اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی اور پاکستان بھی شامل ہے۔
پاکستان میں اس دورانیے میں شہباز شریف کی مخلوط حکومت تھی جو یہ نعرہ لگا کر اقتدار میں لائی گئی تھی کہ سابق عمران حکومت کی جانب سے آزادیِ اظہار کا گلا گھونٹنے کی مبینہ کوششوں کا ازالہ ہو گا۔
اس دورانیے میں جن افراد اور تنظیموں نے انسانی حقوق کے مقامی حالات کے بارے میں اقوامِ متحدہ کو معلومات فراہم کیں ان میں سے دو تہائی نے درخواست کی کہ ان کے نام ظاہر نہ کیے جائیں۔ جبکہ اس سے ایک برس پہلے اپنے نام صیغہ راز میں رکھنے کی اپیل کرنے والوں کی تعداد ایک تہائی تھی۔ گویا جبر اور گھٹن کے ماحول میں صرف ایک سال کے دوران لگ بھگ 100 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس پس منظر میں جب ہم انسانی حقوق کے موضوعات پر گفتگو کے ماحول کے تعلق سے پاکستان کی موجودہ نگراں حکومت کی پالیسی دیکھیں تو 9 مئی کے بعد سے اب تک حالات اور دگرگوں نظر آتے ہیں۔
نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے بی بی سی کو اس ماہ کے شروع میں انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اقوامِ متحدہ کی ایک ذیلی کمیٹی کا اندازہ ہے کہ بلوچستان میں جبری طور پر غائب ہونے والوں کے 50 کیسز ہیں۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں 8 ہزار لوگ لاپتا ہوئے ہیں۔
بقول وزیرِاعظم ہمیں جو شکایات موصول ہوتی ہیں ان میں 5 ہزار تک لوگوں کے جبراً غائب ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور یہ دعویٰ کرنے والے اقوامِ متحدہ کے حقائق کو معیار کے مطابق اعداد و شمار جمع کرنے کے بجائے اس معاملے کو ریاست کی بدنامی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم کے اس دعویٰ کی صحت کے بارے میں انہی کی کابینہ میں انسانی حقوق کے وزیر خلیل جارج سے ایک ٹی وی چینل نے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس جتنی اطلاعات ہیں اس کے مقابلے میں وزیرِ اعظم کے پاس زیادہ معلومات ہوں گی۔ لہٰذا میں ان کے دعویٰ کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ میرا تعلق بھی بلوچستان سے ہے اور یہ معاملہ خاصا حساس ہے۔ اور میرے پاس درست اعداد و شمار بھی نہیں۔ نا ہی مجھے اس معاملے پر اب تک کوئی بریفنگ ملی ہے ، ویسے بھی ہمارا مینڈیٹ صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد تک ہی محدود ہے۔
مذکورہ بالا بیان سے آپ کو انسانی حقوق کے وفاقی وزیر کی بے چارگی کا بخوبی اندازہ ہو جانا چاہیے۔ جہاں سپریم کورٹ اور منتخب حکومتیں اس معاملے کو سلجھانے میں برس ہا برس سے بے بس ہیں وہاں نگراں حکومت کے ایک وزیر سے ایسے حساس موضوع پر جرح کرنا اور وہ بھی ایسے وزیر سے کہ جس کا نام خلیل جارج ہو نِری زیادتی ہے۔
اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ وزیرِاعظم نے جس حق الیقین کے ساتھ اقوامِ متحدہ کی سب کمیٹی کے حوالے سے 50 گمشدگان کا عدد پیش کیا ہے یہ 50 کسی خاص عرصے میں غائب ہوئے ہیں یا نائن الیون کے بعد سے آج تک صرف 50 شہری ہی غائب ہوئے ہیں؟ اس کے مقابلے میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں 8 ہزار شہریوں کی گمشدگی کا جو حوالہ دیا ہے تو اس گمشدگی کا دورانیہ لگ بھگ 30 برس پر مشتمل ہے۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ بلوچستان میں کل ملا کے اب تک 50 شہری ہی لاپتا ہوئے ہیں لیکن ان 50 کی بازیابی کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر ہے یا نہیں؟ کیا انہیں آئین کے مطابق عدالت میں پیش ہونے اور مروجہ قوانین کے تحت مقدمے کا سامنا کرنے کا حق ہے کہ نہیں؟
ریاستی اداروں کو کسی بھی شہری کو گرفتار کرنے اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور فردِ جرم عائد کرنے کا تو حق ہے لیکن کیا پاکستانی آئین اور قانون یہ اجازت بھی دیتا ہے کہ کسی بھی شہری کو غائب کیا جا سکے اور اس کے گھر والوں کو بھی معلوم نہ ہو کہ اسے کس جرم میں کس ادارے نے اٹھا کے کہاں رکھا ہوا ہے اور اسے کب کس عدالت میں پیش کیا گیا ہے یا کیا جائے گا؟۔
اگر ریاست کو بھی اغوا کرنے کا حق ہے تو پھر ریاست اور کسی بھی شہری کو کسی بھی وجہ سے بلاوارنٹ و قانونی وجہ اٹھانے والے نان اسٹیٹ ایکٹرز میں کیا فرق ہوا؟ اگر 5 ہزار گمشدگیوں کا دعویٰ کرنے والے عناصر پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں تو 50 جبری گمشدگیوں کا اعتراف کرنے والے پاکستان کو عالمی سطح پر کتنی خوش نامی دلوا رہے ہیں؟۔
چلئے اور کچھ نہیں تو کم ازکم اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ کو ہی بے بنیاد اور من گھڑت قرار دے دیں جس میں انسانی حقوق کے ضمن میں اقوامِ متحدہ سے تعاون کرنے والے شہریوں اور تنظیموں کو ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی جانب سے خوفزدہ رکھنے کا دعویٰ کیا گیا ہے کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔