15 ستمبر کو اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف آج سوئی سدرن گیس کمپنی کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر اور وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کر دی گئی ہیں۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی بحالی کے بعد پہلی اپیل
پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب قانون میں ترامیم کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آرٹیکل 184 تھری یعنی سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات کے تحت چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے قبل آرٹیکل 184 تھری کے تحت دیے گئے فیصلوں کے خلاف صرف نظرثانی یا ریویو کی درخواست دائر ہو سکتی تھی جس کا دائرہ کار بہت محدود ہوتا تھا۔
اس نظر ثانی کی سماعت وہی بینچ کرتا تھا اور اس میں درخواست گزار کو صرف یہ حق حاصل تھا کہ وہ پہلے دیے گئے فیصلے میں کسی خامی کی نشاندہی کرے، جبکہ درخواست گزار اپنی درخواست میں نئے حقائق شامل نہیں کر سکتا تھا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد اب آرٹیکل 184 تھری کے تحت دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر کی جا سکتی ہے جس کو سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ سنے گا اور اس میں درخواست گزار گزشتہ فیصلے کی خامیوں کے ساتھ ساتھ مقدمے سے جڑے کچھ اور حقائق بھی عدالت کے روبرو بیان کر سکیں گے۔
اپیل میں کیا کہا گیا ہے؟
نیب ترمیمی قانون کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف اپیل میں درخواست گزار زبیر احمد صدیقی نے اپنے وکیل فاروق نائیک کے ذریعے عمران خان، وفاقی حکومت بذریعہ سیکریٹری وزارت قانون اور قومی احتساب بیورو کو فریق بناتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ مقدمہ سپریم کورٹ کو ازخود اختیارات کے تحت سننا چاہیے تھا۔
درخواست گزار زبیر احمد صدیقی نے موقف اپنایا ہے نیب قانون میں ترامیم کالعدم کرکے سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے قانون سازی اور پالیسی سازی کے دائرہ کار میں مداخلت کی ہے۔
درخواست گزار کے خلاف قومی احتساب بیورو نے ان کے خلاف بطور ایم ڈی سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ ایک ریفرنس دائر کر رکھا تھا جس کی سماعت کراچی کی احتساب عدالت نمبر چار میں جاری تھی جب پارلیمنٹ نے نیب قانون میں ترمیم کی۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی جانب سے نیب میں کرپشن ریفرنس کی کم از کم حد پچاس کروڑ کو کالعدم کر دیا ہے دوسری طرف دس کروڑ کی حد پر اتفاق کیا ہے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ نیب قانون میں ترمیم کے ذریعے نہ تو آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کیا گیا، نہ عدلیہ کی آزادی پہ حرف آیا اور نہ بنیادی حقوق متاثر ہوئے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے درخواست گزار کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی بحالی کے تحت درخواست گزار مقدمے کی سماعت کے دوران اور بعد میں عدالت میں نئے حقائق سامنے لا سکتا ہے۔ زبیر احمد صدیقی نے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ کا 15 ستمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
وفاقی حکومت کی اپیل
نیب ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔ وفاقی حکومت نے نیب اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو فریق بناتے ہوئے کہا ہے کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے تھے۔
وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ اس قانون کو کالعدم قرار دے کر سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات میں مداخلت کی ہے۔