سانحہ کارساز : ‘خبر کے مطابق میں شہید ہوچکا تھا’

بدھ 18 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بچے، بوڑھے، عورتیں کئی کئی کلومیٹر سے پیدل رواں دواں تھے، نہ کوئی تھکاوٹ نہ ہی کوئی اجنبی، ہر زبان ہر قوم و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کارواں میں شامل تھے۔ پرچموں کی بہار لیے اس کارواں میں سب کے چہرے پرامید تھے کہ جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو کی 8 سالہ جلا وطنی کے بعد وطن واپسی اس ملک و عوام کے لیے امید کی نئی کرن ہو۔

یہ 18 اکتوبر کا دن تھا اور کراچی میں رہتے ہوئے آج کچھ الگ محسوس ہو رہا تھا کیوں کہ بی بی محترمہ کی آمد تھی،  سینئر صحافی شاہد انجم کہتے ہیں کہ ہم شروع سے ہی ایئر پورٹ پر موجود تھے بے نظیر بھٹو کا جہاز اتر چکا تھا لیکن وہ ایئر پورٹ سے باہر نہیں آئی تھیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے سینئررہنماؤں کی آمد کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ہر عمر اور طبقے سے وابستہ شہری کئی کئی کلومیٹر پیدل چلے آرہے تھے۔

یہ کراچی میں بہت بڑا استقبال تھا

طویل انتظار کے بعد دوپہر کو محترمہ بے نظیر بھٹو ایئرپورٹ سے کارواں کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ صحافی شاہد انجم کے مطابق انہیں اپنے کام میں پہلی بار اتنا کام کرنے کے باوجود تھکاوٹ محسوس نہیں ہو رہی تھی۔

’جسکی وجہ یہ تھی کہ اس کارواں میں شریک لوگ بہت ہی خوش اخلاقی سے ملتے تھے اتنے زیادہ لوگوں کے باوجود ماحول بہت ہی دوستانہ تھا۔ کراچی میں اس سے بڑا استقبال میں نے کبھی نہیں دیکھا اورشاید کبھی دیکھ بھی نہیں پاؤں گا۔‘

شاہد انجم کا کہنا ہے کہ استقبال کے لیے جمع ہونیوالے لوگ بہت خوش تھے اورایک دوسرے سے ایسے مل رہے تھے جیسے ایک دوسرے کو جانتے ہوں، کوئی تناؤ یا کھنچاؤ نہیں تھا، پیپلز پارٹی کے رہنما بھی لوگوں سے گھل مل رہے تھے، کبھی وہ ٹرک سے نیچے لوگوں سے ملنے آتے کبھی کوئی عام بندہ ان سے ملنے چلا جاتا۔

جب والدین اپنا بچہ محترمہ کو دینے ٹرک کے سامنے پہنچ گئے

عینی شاہدین کے مطابق اس روز ایک عجیب بات یہ دیکھی کہ والدین اپنے 2 سالہ بچے کو لیے ٹرک کے سامنے کھڑے تھے، وہ بی بی کو اپنا بچہ دینے پر بضد تھے لیکن سیکیورٹی مسائل آڑے آئے۔ شاہد انجم اس لمحہ کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کئی گھنٹوں سے اپنے گھر سے دوررہنے کے باعث اس بچے کو دیکھ کر انہیں اپنا بیٹا یاد آگیا۔

’میں نے اس بچے کو گود میں اٹھا لیا، جسے پیپلز پارٹی کے پرچم والا لباس اور کیپ پہنائی گئی تھی۔ بعد ازاں مجھ سے دوران تفتیش اس بچے کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے اپنے ریکارڈ کروائے گئے بیان میں نے بتایا تھا کہ وہ ایک نارمل بچہ تھا جس سے آپ اس کے والدین کی بی بی سے محبت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔‘

صحافی شاہد انجم کے مطابق کارواں سڑک کی ایک جانب رواں دواں تھا جبکہ دوسری جانب ایئر پورٹ جانے والی سڑک پر گاڑیوں کی تعداد بہت کم تھی، رات گیارہ ساڑھے گیارہ بجے یہ قافلہ کارساز کے مقام پر پہنچا تھا کیوں کہ لوگ بہت تھے اور سفر بہت آہستہ طے ہو رہا تھا۔

کرائم رپورٹر ہونے کے ناطے پولیس اہلکار انہیں جانتے تھے، یہی وجہ ہے کہ کچھ نے انہیں پولیس موبائل کی چھت پر بیٹھنے کی آفر کی۔ شاہد انجم کے مطابق انکے ساتھ سینئرصحافی عاصم بھٹی بھی موجود تھے۔

’عاصم بھٹی نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ چھت پر بیٹھ جائیں، میں گاڑی کے اندر بیٹھ جاتا ہوں، کچھ دیر گے بعد عاصم بھٹی اور پولیس اہلکاروں میں تلخ کلامی ہوئی جس کی بنا پر عاصم بھٹی نے مجھ سے کہا کہ آپ بیٹھیں میں گاڑی سے اتر رہا ہوں۔‘

جیسے کسی نے ماچس کی تیلی جلائی ہو اور پھر دھماکہ

شاہد انجم کے مطابق وہ موبائل وین کی چھت پر بیٹھے تھے کہ اچانک انہیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے ماچس کی تیلی جلائی ہے، انہیں پولیس موبائل کے پچھلے ٹائر سے آگ کی لو نظر آئی اور اسکے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوگیا۔

’میرا اندازہ ہے کہ میں 35 سے 40 فٹ تک دھماکے سے اڑا اور پولیس موبائل بھی پوری دھماکے سے اڑ چکی تھی، میں واپس زمین پر گرا میرا سر پھٹ چکا تھا، بم سے نکلنے والا ایک بال بیئرنگ میری جیکٹ میں سوراخ کرتے ہوئے جسم کے اندر داخل ہو چکا تھا۔‘

جیسے کوئی قبرستان ہو

’میں جیسے اٹھا تو مجھے لگا جیسے میں قبرستان میں سے زندہ اٹھا ہوں ارد گرد لاشیں تھیں، کوئی تڑپ رہا تھا، کسی کے جسم کے کئی کئی حصے ہو چکے تھے، اس دوران ایک ایمبولنس سے آواز آئی کہ آجائیں آپ کو اسپتال چھوڑ آئیں، جب میں نے ایمبولنس دیکھی تو اس میں پہلے سے کئی زخمی لوگ موجود تھے، اسکے بعد مجھے ایک موٹر سائکل سوار نے نجی اسپتال پہنچایا۔‘

نئی زندگی کا نیا سال مبارک

پہلے دھماکے کے ساتھ ہی دوسرا دھماکہ بھی ہوگیا تھا، ایک افراتفری کا عالم تھا بی بی شہید کو وہاں سے بحفاظت نکال کر ان کی رہائش گاہ بلاول ہاؤس پہنچادیا گیا، 350 کے لگ بھگ لوگ اس سانحہ میں شہید ہوئے تھے اور بہت سوں کی تو شناخت بھی نہیں ہو پائی تھی۔

شاہد انجم بتاتے ہیں کہ یہ ان کی زندگی کی نیا آغاز تھا، 18 اکتوبر کی رات کو انہیں احساس ہوا کہ آج ان کی نئی زندگی کا نیا سال شروع ہو رہا ہے۔

خبر کے مطابق میں شہید ہو چکا تھا‘

ایک نجی ٹی وی چینل نے خبر نشر کردی کہ صحافی شاہد انجم بم دھماکے میں شہید ہوگئے ہیں، ان  کے اہل خانہ اس وقت ان کی تلاش میں تھے، لیکن رابطے کا واحد ذریعہ موبائل فون تھے، جو دھماکوں کی نذر ہوچکے تھے۔ ’مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ گھر میں پریشانی ہوگی اب میرے سر میں ٹانکے لگ چکے تھے اور میں گھر جا سکتا تھا تو اسپتال میں ہی کسی سے اپنے بھائی کو فون کیا اور وہ اسپتال پہنچ گئے۔‘

رات جو قیامت کے برابر تھی

یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا، کس طرح لوگوں نے اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے ہوئے وہ رات گزاری، وہ بہت درد ناک تھا بہت عجیب تھا،  صحافی شاہد انجم کے بڑے بھائی ان تک کیسے پہنچے ہوں گے، کیا کیفیت ہوگی جب انہیں شاہد انجم کی شہادت کا معلوم ہوا ہوگا۔

’وہ (بڑے بھائی) اس خبر کے بعد مردہ خانے میں میری لاش بھی تلاش کرتے رہے اور پھر انہیں ایک فون کال پر بتایا گیا کہ آپ کے بھائی مرے نہیں زخمی ہیں اور اسپتال میں ہیں، میرے بھائی نے مجھے بتایا کہ یہ چند منٹوں کا سفر ان کے لیے ہزاروں سال کے برابر تھا۔‘

میں بھٹو ہوں

میں سانحہ کارساز کے بعد ایک بار لاڑکانہ گیا تو وہاں لوگوں نے کہا کہ کچھ دور ایک گاؤں ہے جہاں ایک قبرستان میں موجود قبروں پر ’میں بھٹو ہوں‘ لکھا ہے۔ شاہد انجم بتاتے ہیں کہ جب میں اس قبرستان پہنچا تو وہاں لکھا تھا کہ سانحہ کارساز میں شناخت نہ ہونے والے افراد کی تدفین یہاں کی گئی ہے۔

ہم کتنے خوش نصیب ہیں

شاہد انجم نے اس سانحے کے اگلے سال زخمیوں کے پاس جا کر ایک اسٹوری کی تھی، جس کے لیے وہ شہدا کے گھروں پر بھی گئے اور ان کے اہل خانہ سے بات چیت بھی کی، جن کا کہنا تھا کہ وہ دوبارہ بھی یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔

’میں خود اسکا عینی شاہد تھا تو مجھے اندازہ تھا کہ لوگوں نے وہ وقت کیسے گزارا ہوگا، جب یہ اسٹوری آن ایئر ہوئی تو میں نے والدہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے، میری بیوی، جو اب اس دنیا میں نہیں رہی، نے کہا کہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ آج ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں ورنہ کتنے لوگ اس سانحہ میں شہید ہوچکے ہیں۔‘

ساںحہ کارساز کی تفتیش

اس کیس کی تفتیش آج تک جاری ہے، کرائم رپورٹر شاہد انجم کو بھی اس تفتیش میں شامل کیا گیا، اور ان سے بھی تفتیش کی گئی اور میڈیکل ریکارڈ بھی جمع کیا گیا۔ آج بھی عزیز بھٹی تھانے میں وہ ٹرک موجود ہے جس پر بی بی محترمہ سوار تھیں۔

’ سب جانتے تھے کہ محترمہ کی جان کو خطرہ ہے لیکن وہ ایک دلیر خاتون تھیں خطروں کے باوجود وہ اسپتال گئیں اور زخمیوں کی عیادت کی۔ ڈی ایس پی نواز رانچھا اس کیس کے تفتیشی افسر تھے جنہیں رمضان المبارک میں ایم جناح روڈ پر شہید کیا گیا۔‘

سانحہ کارساز کے پہلے تفتیشی افسر کا قتل

سانحہ کارساز کی تفتیش سے متعلق پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور قانون دان سینیٹر شہادت اعوان بتاتے ہیں کہ اس سانحے سے قبل ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کو خطرات سے آگاہ کیا جا چکا تھا، ان خطرات کے باوجود انہوں نے عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا، وہاں کئی دھماکے کیے گئے سینکڑوں افراد شہید ہوئے اس وقت ہم اپوزیشن میں تھے۔

’ایک ایف آئی آر درج کروانے کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو عدالت گئیں جہاں انہوں نے 22-A کی ایک درخواست دائر جس پر عدالت نے ایف آئی آر درج کرانے کا حکم دیا تو تب جا کر اس سانحے کا مقدمہ درج ہوا تھا اور اس کی تفتیش ٹھیک طرح سے نہیں ہو رہی بلکہ ایک تفتیشی افسر کو بھی قتل کردیا گیا ہے۔‘

شہادت اعوان کے مطابق سانحہ کارساز کا مقدمہ اب بھی زیر سماعت ہے، ختم نہیں ہوا، خون رنگ لائے گا اور یہ مقدمہ بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اتنا بڑا سانحہ ہونے اور بی بی کو ڈرانے کے باوجود وہ ڈری نہیں، انہوں نے زخمیوں اور شہدا کے لواحقین کو سنبھالا۔ ’بارہا بی بی محترمہ کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کا کہا گیا لیکن انہوں نے جان دینا تو گوارا کی لیکن اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp