پاکستانیوں کو گزشتہ کچھ عرصہ سے سفر، خریداری یا دیگر ادائیگیوں کے دوران’سر، دوسرا نوٹ دے دیں، یہ نہیں چلے گا‘ یا پھر ’میم، یہ نوٹ نہیں چلتا‘ جیسے جملے سننا پڑ رہے ہیں۔
ریاستی سطح پر اہم ایام کی مناسبت سے یادگاری سکے یا کرنسی نوٹ جاری کیا جانا ایک معمول سمجھا جاتا ہے، البتہ پاکستان میں کچھ عرصہ قبل جاری کردہ 75 روپے کا نوٹ بہت سے افراد کے لیے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
خریداری، فیسز یا دیگر ادائیگیوں کے وقت مارکیٹ سے ایسے جملے سننے کے بعد عام پاکستانی کنفیوز ہو جاتا ہے کہ ایک ہی سرکاری ضمانت کے ساتھ جاری کردہ باقی نوٹ قابل قبول ہیں تو یہ کیوں نہیں تسلیم کیا جارہا؟
بہت سے صارفین کا ماننا ہے کہ ’سرکاری سطح پر جاری کرنسی نوٹ‘ کا قابل قبول نہ ہونا اس لیے تعجب کی بات ہے کہ ماضی میں جب بھی کوئی خصوصی سکہ جاری ہوا، مارکیٹ اسے فورا تسلیم کر لیتی تھی۔
معاشی و بینکاری امور کی بہتر سوجھ بوجھ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ماضی میں ای، 2، 5، 10، 50 کی یادگاری کرنسی جاری ہوتی رہی، اسی مالیت کے عام نوٹ یا سکے بھی رائج رہے ہیں، اس لیے تذبذب کے بغیر یادگاری کرنسی بھی قبول کی جاتی تھی۔
ان افراد کا ماننا ہے کہ پاکستان میں کبھی 75 روپے کا نوٹ یا سکہ قابل استعمال نہیں رہا اس لیے جب اسٹیٹ بینک نے یادگاری نوٹ جاری کیا تو بڑی تعداد اسے ایک اجنبی عمل سمجھ کر ابہام کا شکار ہوئی۔
پاکستان کے مرکزی بینک نے یادگاری نوٹ کو سبز اور نیلے رنگوں میں جاری کیا تو ایک ہی نوٹ کے دو رنگوں نے پھر یہ ابہام پیدا کر دیا کہ کہیں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہے۔
یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو باقاعدہ وضاحت کرنا پڑی ہے کہ ’75 روپے کے سبز اور نیلے نوٹ باقاعدہ کرنسی ہیں اور دیگر نوٹوں کی طرح قابل استعمال ہیں۔‘