منگل کی رات فلسطین کے شہر غزہ کے الاھلی عرب اسپتال پر اسرائیل کی جانب سے خوفناک بمباری میں جہاں کم از کم 500 افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے وہیں اس واقعہ نے عالمی غم و غصے کو بھی جنم دیا ہے، جس کے بعد باہمی الزامات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
فلسطینی فریق کو یقین ہے کہ یہ دھماکا اسرائیلی فضائیہ کے طیارے سے گرائے گئے ایک اور اسمارٹ بم کا شاخسانہ ہے لیکن اسرائیل نے فوری طور پر اس کا الزام فلسطینی جنگجوؤں پر عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ دھماکا غزہ سے داغے گئے راکٹ کی وجہ سے ہوا ہے، جو اپنی مکمل پرواز کی رفتار سے ممکنہ اسرائیلی ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہا۔
بمباری کے فوری بعد دستیاب بہت کم ثبوت قطعی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ تباہ شدہ اسپتال کے ملبے کا صرف ایک محتاط تجزیہ جس سے مبینہ بم کے بیرونی خول کے پھٹنے والے ٹکڑوں کو سامنے لانے سے ہی بمباری کی مثبت شناخت اور جارحیت کے نقطہ آغاز کا تعین ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
Two tweets by Israeli authorities. Both deleted after the al-Ahli hospital in Gaza City was bombed. pic.twitter.com/AmaCaP3xCj
— Boris van der Spek (@BorisvanderSpek) October 17, 2023
اس تازہ ترین حملے سے قبل بھی، ایسے شواہد کا ایک بڑھتا ہوا حجم سامنے آیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی فضائی حملے بڑے پیمانے پر بلا امتیاز کیے گئے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیلی اہداف کے انتہائی محتاط تجزیے مسلسل فضائی گولہ باری میں واضح فوجی نمونے کو ظاہر کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
جس سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے: گزشتہ ہفتے فلسطینیوں کو شمالی غزہ سے انخلاء کی اسرائیلی کال کے پیچھے کیا منطق کارفرما تھی؟ فوجی حکمت عملی کے نقطہ نظر سے، اس کے دو ممکنہ جوابات ہیں، اور اسرائیل کے لیے دونوں صورت میں غلط ہو ں گے۔
پہلا امکان غزہ کی سڑکوں پر ایسی افراتفری پھیلانے کی خواہش ہو سکتی ہے کہ حماس کے جنگجوؤں کی نقل و حرکت مشکل یا تقریباً ناممکن ہو جائے۔ یہ منطق کلاسک فوجی سوچ کی غماز ہے، جو مختلف جنگوں میں کئی بار کامیاب ثابت ہوئی ہے۔
لیکن یہ دو مساوی فریقوں کے ساتھ کلاسک جنگ نہیں ہے اور نہ ہی حماس کے جنگجو کلاسک فوجی فارمیشن ہیں۔ اس حقیقیت کو تسلیم کیے بغیر کوئی بھی اسرائیلی نقطہ نظر محدود کامیابی کی ضمانت بھی نہیں دے سکتا۔
اسرائیل کی طرف سے غزہ انکلیو کی ناکہ بندی کے برسوں کے دوران، حماس کے جنگجوؤں نے غزہ کی پٹی کے نیچے کھودی ہوئی سرنگوں کا ایک جال مرتب کرلیا ہے۔ واضح فوجی وجوہات کی بناء پر، ان کا وجود فلسطینی فوجی راز کے طور پر محفوظ تھا اور یہاں تک کہ جب ان کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا، صرف مبہم معلومات کو طشت از بام کیا گیا، ورنہ وہ ابھی تک پراسراریت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ زمین کے نیچے گزرگاہیں کھودنے کا عمل سب سے پہلے اس علاقے پر اسرائیلی قبضے پر قابو پانے کی ضرورت کے ساتھ شروع ہوا جو 2005 تک جاری رہا۔ پہلی قیاس آرائیاں کہ غزہ کے فلسطینی سامان، فوجی سامان اور کلاسیکی ممنوعہ اشیاء کی اسمگلنگ کر رہے ہیں، 1990 کی دہائی میں سامنے آیا، جب غزہ کی یہ پٹی الفتح کے سیاسی کنٹرول میں تھی۔
شروع میں ان سرنگوں کو بہت ابتدائی نوعیت کی تعمیر سمجھا جاتا تھا، جو مصر کے ساتھ سرحدی باڑ کے نیچے سے گزرنے کے لیے کافی لمبی تھیں اور دونوں طرف سے داخلی دروازے گھروں سے چھپے ہوئے تھے۔ وہ چند سو میٹر تک کھودی گئیں اور اتنے چھوٹی تھیں کہ لوگوں کو انہیں استعمال کرنے کے لیے جھکنا پڑتا تھا۔
جنہوں نے بھی سرائیوو کی سرنگ کا دورہ کیا ہو، وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک انفرااسٹرکچر ہے، جسے بوسنیا اور ہرزیگووینا کی فوج نے 1993 کے وسط میں شہر کے محاصرے سے نجات دلانے کے لیے عجلت میں کھودا گیا تھا۔ وہ تصور کر سکتے ہیں کہ ابتدائی مصر اور غزہ کے درمیان سرنگیں کس طرح نظر آتی تھیں، ایک ہاتھ سے کھودی گئی تنگ ٹیوب کی طرح جس کی مختصر اونچائی پر واقع چھت کو شہتیر اور کھمبوں نے تھام رکھا ہو۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرحد پار سرنگیں غزہ میں مختلف اقسام کی اشیاء کی اسمگلنگ کا بہت مؤثر ذریعہ بن گئیں۔ سرنگ کے اس نیٹ ورک نے فلسطینی سرزمین کے اندر بھی توسیع پائی، جس سے شہریوں کو دشمن کے مخبر اور سیٹلائٹ، ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹروں سے لے کر بغیر پائلٹ کے ڈرون تک اسرائیلی نگرانی کے آلات سے آزادانہ نقل و حرکت ممکن نہیں۔ سرنگ کی تعمیر کے اس مسلسل عمل نے اپنے معماروں کو اس کام میں انتہائی ہنر مند کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ زیر زمین سہولیات کے معیار کو بہتر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے جاری کی گئی حماس کی ویڈیوز میں حیرت انگیز سائز اور نفاست کی سرنگیں دکھائی گئی ہیں، جو مناسب پہلے سے تیار شدہ کنکریٹ کے عناصر سے بنی ہیں، جو اتنی لمبی اور چوڑی ہیں کہ نہ صرف کھڑے ہونے کی اونچائی اور کافی چوڑائی جنگجوؤں کو تیز رفتاری سے گزرنے کی اجازت دیتی ہے بلکہ مزید جگہ بھی فراہم کرتی ہین جسے راکٹ سمیت اسلحہ اور گولہ بارود کے لیے اچھی طرح سے محفوظ اسٹوریج کے طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
سرنگوں کی حد اور درست مقام معلوم نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک وسیع نیٹ ورک ہے اور یہ زیر زمین فوجیوں اور گولہ بارود کی موثر نقل و حرکت کی اجازت دیتا ہے۔ تمام عملی مقاصد کے لیے، حماس کی نسبتاً چھوٹی لڑاکا قوت دفاعی اور جارحانہ دونوں کارروائیوں میں، سرنگوں کے ذریعے ایک جھڑپ سے دوسری جھڑپ تک دوبارہ پوزیشن لے سکتی ہے۔
لہٰذا، اگر اسرائیل کے شمالی غزہ کے لوگوں کو وہاں سے نکل جانے کے حکم کا مقصد حماس کے فوجیوں کی دوبارہ پوزیشن اختیار کرنے کی صلاحیت کو سست کرنا تھا تو یہ زمینی حقائق یا اس کے بجائے زیر زمین – حقیقت کی غلط تشریح تھی۔ اس آرڈر کے لیے اسرائیلی فوجی کمانڈروں کی سوچ کی دوسری ممکنہ لائن غیر جنگجوؤں کے علاقے کو خالی کرنے اور اپنی جارحانہ کارروائیوں کو آسان اور آسان بنانے کی خواہش ہو سکتی ہے۔
نظریہ کی حد تک اس میں معقول منطق پنہاں ہے، اگر زیادہ تر عام شہری وہاں سے نکل جاتے ہیں، تو حملہ آور یہ فرض کر سکتے ہیں کہ جو بھی زمین پر موجود ہے وہ ایک جنگجو ہے، اور اس طرح وہ ایک جائز فوجی ہدف قرار پائے گا۔ مزید برآں، اس طرح کی پیش رفت سے عام شہریوں کے متاثرین میں کمی اور ان الزامات کا قلع قمع کیا جاسکے گا کہ اسرائیلی فوج فلسطینی شہریوں کو اندھا دھند قتل کرتی ہیں۔
درحقیقت، اسرائیل کو معلوم ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ اور متعدد انسانی تنظیموں نے زور دیا ہے کہ پہلے سے گنجان آباد علاقے میں 11 لاکھ لوگوں کے لیے راتوں رات منتقل ہونا ناممکن ہوگا، خاص طور پر محاصرے کے حالات میں جہاں خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن کی پہلے ہی قلت ہے۔
لیکن یہاں تک کہ اگر تمام غیر جنگجو اس ہدایت پر عمل کریں اور معجزانہ طور پر شمالی غزہ کو چھوڑنے میں کامیاب ہو جائیں تو تربیت یافتہ، مسلح اور اسلحہ سے لیس پیادہ فوج میں غیر متناسب فائدے کے باوجود اور جدید ترین آلات کے ساتھ فضائی برتری کے ساتھ اسرائیل کی زمینی کارروائی کسی بھی طرح سے واک اوور نہیں ہو گی۔
ایک پرانی ’عسکری سچائی‘ کے مطابق ایک کمانڈر کسی علاقے پر قبضہ صرف اس وقت کر سکتا ہے جب اس کے اپنے سپاہیوں کے جوتے ہر کونے اور اس علاقے کے مرکز میں زمین پر ہوں۔ ملبے سے بھرا ہوا گنجان شہری خطہ، جہاں عمارتیں پہلے ہی فضائی بمباری اور توپ خانے کی آگ سے بڑی حد تک تباہ یا برباد ہوچکی ہیں، فوجی پیش قدمی کے لیے قابل اعتراض اور چیلنجنگ قسم کی زمین ثابت ہوگی۔
تاریخ سے کسی نظیر کی تلاش میں اسٹالن گراڈ ذہن میں آتا ہے۔ اپنی بہتر تربیت اور فوجی تجربے اور وسیع تکنیکی برتری کے باوجود، وہاں کی جرمن فوجوں نے تباہ شدہ شہر کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے 8 ماہ تک جدوجہد کی، تاہم وہ سوویت محافظوں کے عزم اور قربانی پر قابو نہ پاسکے۔
آدھے تباہ شدہ شہروں میں، حملہ آور کسی بھی دوسرے خطہ کے مقابلے میں بہت زیادہ مشکل صورتحال سے دوچار رہے ہیں اور حملہ آور فوج کو کامیابی کا موقع حاصل کرنے کے لیے درکار کلاسک 3:1 کا تناسب کافی نہیں ہے، ایسی صورتحال میں 5:1 یا اس سے زیادہ تناسب زیادہ حقیقت پسندانہ ہوگا۔
اگر غزہ کے شہری اسرائیلی مطالبات پر عمل کرتے ہوئے شمالی علاقے کو خالی کرتے ہیں، تو وہ حماس کے جنگجوؤں کے لیے لڑنے میں آسانی پیدا کریں گے کیونکہ انہیں اپنے بھائیوں اور بہنوں پر ان کے اقدامات کے اثرات کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ وہ بغیر سوچے سمجھے زمین پر چلنے والے کسی بھی شخص کو مار سکتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ان کے ساتھی زیر زمین راہداریوں کو ایک جگہ سے غائب ہونے اور کسی اور جگہ غیر متوقع طور پر دوبارہ ظاہر ہونے کے لیے عملی طور پر اتنا ہی استعمال کریں گے۔