’جب جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت سے نواز شریف کا تعلق ثابت نہیں ہوتا‘

جمعہ 20 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس پہنچ رہے ہیں، قائد مسلم لیگ ن کی واپسی کے لیے استقبالیہ تیاریاں مکمل ہیں۔ سوشل میڈیا پر آج سے ہی یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا نواز شریف وزیراعظم بننے کے لیے واپس آ رہے ہیں۔

نواز شریف کو 2017 میں مشہور پاناما کیس میں نااہل کیا گیا تھا اور اس کے بعد انہیں عدالت نے العزیزیہ کرپشن ریفرنس اور ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں قید کی سزا سنائی تھی۔

نیب پراسیکیوٹر سرادار مظفر عباسی نے 2022 میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں موقف اختیار کیا تھا کہ ایون فیلڈ فلیٹس 94-1993 میں خریدے گئے تھے اور یہ نیلسن اور نیسکول نامی دو آفشور کمپنیوں کی ملکیت تھے۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ کہتے ہیں ان فلیٹس کی ملکیت میں مریم نواز کا کردار 2006 میں شروع ہوا اور اب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز ان فلیٹس کی بینیفیشل مالکہ ہیں، تو اس بات سے کیا ہم یہ سمجھیں کہ میاں نواز شریف کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں؟ جسٹس عامر فاروق نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ ایون فیلڈ مقدمے کی دستاویزات میں کہیں بھی میاں نواز شریف کا ذکر نہیں۔

یہ 28 ستمبر 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ مقدمے سے بریت کے لیے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں کی سماعت کے موقع پر موجودہ چیف جسٹس، جسٹس عامر فاروق کے ریمارکس تھے۔ اس سماعت کے بعد مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو الزامات سے بری کر دیا گیا اور ان کے وکلا کا یہ کہنا تھا کہ اصل میں عدالت نے یہ مقدمہ ختم ہی کر دیا ہے اب میاں نواز شریف جب بھی اس مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہوں گے تو ان کی بریت ایک رسمی کارروائی ہو گی کیونکہ عدالت نے احتساب عدالت کے فیصلے کی تمام بنیادیں ہی ختم کر دی ہیں۔

میاں نواز شریف کے خلاف کون کون سے مقدمات زیر التوا ہیں؟

سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ کرپشن ریفرنس اور ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں بالترتیب 7 اور 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ان دونوں مقدمات میں عدم پیشی پر نواز شریف کو دسمبر 2020 میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ نومبر 2019 میں لاہور ہائی کورٹ کو لندن میں 4 ہفتے علاج کروانے کے بعد واپسی کی یقین دہانی پر ملک سے باہر گئے تھے۔ تیسرا مقدمہ توشہ خانہ تحائف سے متعلق ہے لیکن وہ ابھی ٹرائل کے مرحلے میں ہے۔

مریم نواز کی اپیلوں پر نیب کا موقف

نیب کا موقف تھا کہ یہ لندن فلیٹس میاں نواز شریف کی بے نامی جائیدادیں ہیں جن کو مریم نواز کے نام پر رکھا گیا ہے اور جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے دستاویزات کے معائنے کے بعد یہ رائے قائم کی تھی۔ لیکن عدالتی آبزرویشن یہ تھی کہ نیب ایون فیلڈ فلیٹس سے نواز شریف اور مریم نواز کا تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ ایک تفتیشی افسر کی رائے کو بطورثبوت قبول نہیں کیا جا سکتا۔

العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں ممکنہ طور پر کیا موقف اپنایا جا سکتا ہے؟

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور دیگر رہنما العزیزیہ فیصلے کے بارے میں مرحوم جج ارشد ملک کی ویڈیو کو لے کر اس فیصلے میں سزا کو متنازعہ کہتے رہے ہیں اور اگست 2019 میں نواز شریف نے سپریم کورٹ میں اس ویڈیو کی بنیاد پر ایک اپیل بھی دائر کی تھی کہ ویڈیو میں احتساب عدالت کے جج کسی دباؤ کے زیر اثر سزا کا اعتراف کر رہے ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل کا فورم ہائی کورٹ ہے اور ہم اگر کوئی فیصلہ کریں گے تو اس سے ہائی کورٹ میں زیر سماعت اپیلوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں سنائی جانے والی سزا کے خلاف اپیل زیر التوا ہے اور اس پر فیصلہ بھی تب ہی آئے گا اگر ہائی کورٹ ممکنہ طور پر میاں نواز شریف کی اپیل کے حق کو بحال کر دے۔

کیا نواز شریف آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے پائیں گے؟

میاں نواز شریف کے انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے سب سے پہلی رکاوٹ ان کو سنائی جانے والی سزا ہے اور اس کے بعد سپریم کورٹ سے تاحیات نااہلی۔ ان دو حوالوں سے وی نیوز نے مختلف وکلا کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے، عمران شفیق

میاں نواز شریف کے خلاف نیب مقدمات میں نیب کی جانب سے پیش ہونے والے پراسیکیوٹر عمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جب میاں نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا تھا تو اس فیصلے میں لکھا تھا کہ وہ جب بھی واپس آئیں تو ایون فیلڈ اور العزیزیہ میں اپنی اپیلیں دوبارہ کھلوا سکتے ہیں۔ دوسرا نیب کے ترمیمی قانون میں ضمانت پر رہائی کا آپشن موجود ہے اور سپریم کورٹ نے اس ترمیم کو کالعدم نہیں کیا اس لیے میاں نواز شریف کو ان مقدمات میں ضمانتیں مل سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان مقدمات میں زیادہ بحث کے لیے اب کچھ نہیں ہے اور یہ مقدمات بہت جلد تصفیہ ہو سکتے ہیں اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان مقدمات کی سماعت کتنی جلد ہوتی ہے۔

کیا میاں نواز شریف انتخابات میں حصہ لے پائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں عمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ اگر میاں نواز شریف 2 کرپشن ریفرنسز سے بری ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد ان کی انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت پر سوال ہو گا۔ میاں نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا اور نااہلی کے حوالے سے الیکشن ایکٹ میں جو ترمیم کی گئی ہے اس کا اطلاق کسی جرم میں سزا یافتہ مجرم پر ہوتا ہے۔ جبکہ میاں نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔

کسی بھی شخص کو تاحیات نااہل نہیں کیا جا سکتا، ذوالفقار احمد بھٹہ

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ذوالفقار احمد بھٹہ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2017 کے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو کسی نے چیلنج نہیں کیا اور وہ رائج الوقت ہے جس کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اگر میاں نواز شریف اپنے مقدمات سے بری ہو جاتے ہیں تو یہ چیز بھی ان کی نااہلی ختم کرنے کے لیے معاون ثابت ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ کسی بھی شخص کو تاحیات نااہل کیا ہی نہیں جا سکتا یہ غیر آئینی ہے۔ اور پانامہ مقدمے میں مانیٹرنگ جج لگانے کی بھی اس سے پہلے کوئی قانونی نظیر نہیں۔

نواز شریف کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی، راجہ رضوان عباسی

راجہ رضوان عباسی ایڈووکیٹ نے کہا کہ میاں نواز شریف انتخابات میں حصہ لے پائیں گے یا نہیں اس کا فیصلہ بالآخر سپریم کورٹ سے ہی ہو گا۔ پہلے تو میاں نواز شریف اگر انتخابات کے قریب مقدمات سے بری ہو جاتے ہیں تو پھر وہ کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے۔ جن پر فریق مخالف کی جانب سے اعتراض کیا جائے گا کہ وہ تاحیات نااہل ہیں۔ جس پر میاں نواز شریف الیکشن ایکٹ 2017 میں کی گئی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے اور وہی اس پر فیصلہ کرے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp