اگراب الیکشن ہونا ہیں تو وہ 90 روز میں تو نہیں ہوسکتے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی

پیر 23 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ کررہا ہے، جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللّٰہ بھی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا کہ یہ ایک ارجنٹ معاملہ ہونا چاہیے تھا، عابد زبیری بولے؛ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو جلد سماعت کی درخواست دی تھی، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بروقت درخواست مقرر ہوتی تو ابھی تک فیصلہ ہوچکا ہوتا۔

عابد زبیری نے بتایا کہ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کو 90 روز میں انتخابات یقینی بنانے کا حکم دیا جائے اور مشترکہ مفادات کونسل کا مردم شماری شائع کرنے کا آرڈر کالعدم قرار دیا جائے، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ مردم شماری کب شروع اور ختم ہوئی، عابد زبیری کی جانب سے لاعلمی کا اظہار کرنے پر چیہف جسٹس بولے؛ آپ آرٹیکل 19 کے تحت ایک خط لکھ کر پوچھ لیتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ مردم شماری کا تعلق کیا انتخابات سے ہے، مردم شماری کے لیے آئین کا مینڈیٹ کیا ہے۔ عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی صرف پالیسی بنانے کا ذکر ہے، چیف جسٹس بولے؛ لگتا ہے مردم شماری 18 ماہ پہلے ہی شروع ہوئی ہوگی، کیا مردم شماری آئینی ضرورت ہے، جس کا جواب عابد زبیری نے اثبات میں دیا۔

عدالتی استفسار پر عابد زبیری نے بتایا کہ اس سے قبل مردم شماری 2017 میں ہوئی تھی، جس پر چیف جسٹس بولے؛ اس میں تو لکھا تھا کہ وہ ایک عبوری مردم شماری تھی، کیا اس کے بعد کوئی حتمی مردم شماری بھی ہوئی، کیا اس مردم شماری پر حتمی ہونے کا کوئی ٹھپہ لگا، اگر 2017 والی مردم شماری فائنل نہیں ہوئی تو پھر فرق آ جائے گا۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اگر موجودہ مردم شماری نہ مانی جائے تو انتخابات 2017 والی مردم شماری پر ہوں گے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  2017 والی مردم شماری کو صرف 2018 والے انتخابات کے لیے استعمال کرنے کے لیے کہا تھا، اگر مان لیں موجودہ مردم شماری کالعدم ہوگئی تو آپ کی استدعا کیا ہو گی، کیا آپ پھر دوبارہ مردم شماری کا کہیں گے یا پرانی پر انتخابات کی استدعا کریں گے۔

عابد زبیری کا پرانے فیصلے کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس کا اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہم ابھی اپ کا کیس سمجھے نہیں آپ فیصلوں پر آ گئے۔ ’اگر سب کچھ پرانے فیصلوں میں لکھا ہے تو اپ دلائل ہی نہ دیں، آپ نے کسی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا، آئینی دلائل دیں جذباتی نہیں، اگراب الیکشن ہونا ہیں تو وہ 90 روز میں تو نہیں ہوسکتے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے عابد زبیری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اب بھی 90 روز میں انتخابات والی استدعا پر دلائل دیں گے، نگراں حکومت آئینی ہوتی ہے آپ نے غیر آئینی لکھا ہے، جس پر عابد زبیری بولے؛ ہم نے استدعا کی ہے کہ دو نگران وزرااعلی کی مشترکہ مفادات کونسل میں شرکت کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ 2017 والی مردم شماری پرانتخابات چاہتے ہیں، آپ ہاں یا نہیں تو کہیں، ہم اگرمگرپر نہیں چلیں گے، آپ آئینی درخواست لائے ہیں، آپ کو ایک پوزیشن لینا ہوگی، جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ آپ اس مردم شماری میں پڑیں گے تو الیکشن مزید التواء کا شکار ہوسکتے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس بولے؛ مائی لارڈ نے بالکل ٹھیک کہا آپ کی درخواست کا یہ نتیجہ نکل سکتا ہے، یہ بھی دیکھ لیجیے گا آپ نے کوئی جلد سماعت کی درخواست دی یا  نہیں، ہمارے ریکارڈ میں ایسا نہیں ہے۔ عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت

وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت میں درخواست گزارعابد زبیری نے بتایا کہ 12 اپریل 2021 کو مشترکہ مفادات کونسل نے 2017 کی مردم شماری کی منظوری دی۔ چیف جسٹس کے استفسار پر  عابد زبیری نے بتایا کہ اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت تھی؛ چیف جسٹس بولے؛ پھر مردم شماری کی منظوری میں 4 سال کیوں لگے، آپ تاخیر کے ذمے دار کا نام بتائیں۔

عابد زبیری کا کہنا تھا کہ مردم شماری کا نوٹیفکیشن منسوخ ہو گیا تھا۔ جب 2017 کی مردم شماری منظور ہو گئی تو ساتھ کہا گیا کہ جلد از جلد نئی مردم شماری کرائی جائے، پھر کیوں نہ کرائی گئی، یہی مسئلہ ہوتا ہے جب وکیل سیاستدان بن جاتے ہیں۔ آپ آدھی سچائی کیوں بیان کرتے ہیں۔ گزشتہ حکومت نے مردم شماری نہیں کرائی اور جب نئی حکومت نے کرا دی تو کہتے ہیں غلط ہے۔

’آپ نے اس وقت مردم شماری کے فیصلے کو چیلنج کیوں نہیں کیا، اردو میں کہتے ہیں دیر آید، درست آید، آپ کہتے ہیں غلط ہے۔ مردم شماری کرانا مشکل کام ہے جب کہ اس کی منظوری کے لئے تو فون کر کے صرف چاروں وزرائے اعلیٰ کو بلانا ہوتا ہے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ مردم شماری بھی عدالتی مداخلت پر ہوئی تھی، جب بلوچستان میں مقامی حکومت کا مقدمہ لگا تھا جس میں سب سے بڑی رکاوٹ مردم شماری تھی، آپ کہتے ہیں کہ 2023 کی مردم شماری منظور کرنے والے 2 ممبرز نہیں تھے، اس طرح تو 2017 کی مردم شماری میں بھی سندھ نے اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

چیف جسٹس بولے؛ یا تو آپ کہہ دیں کہ ہم الیکشن نہیں چاہتے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگرتوانتخابات کے انعقاد کے لیے مردم شماری ایک آئینی ضرورت ہے توانتخابات کا التواء سمجھ میں آتا ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کو واضح طور پر کہا ہے کہ وہ صرف یہ بتائیں کہ ملک میں انتخابات چاہتے ہیں یا نہیں۔

’اگر آپ کہیں گے کہ 90 دن میں نہیں ہوئے، مشترکہ مفادات کونسل کا فورم غلط تھا، مردم شماری غلط ہوئی، صدر کا اختیار تھا یا الیکشن کمیشن کا، تو پھر ہمیں ان آئینی نکات کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ بنانا پڑے گا۔ ایک عام سی درخواست میں مہینوں لگ جاتے ہیں یہ تو پھر آئینی سوالات ہیں۔‘

چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا کہ آپکا سارا مقدمہ ہی صدر مملکت کے اختیارات کا ہے، جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ اگر تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے تو پھر تاخیر کا ذمہ دار کون ہے، آئینی کام میں تاخیر کے نتائج ہوں گے، انور منصور بولے؛ صدر مملکت کے خط کے بعد تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریمارکس دیے کہ کیا صدر مملکت نے آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی؟ آپ ایک وقت میں دو مختلف دلائل نہیں دے سکتے، آرٹیکل 48 پر انحصار کریں یا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 پر، جس دستاویز کا حوالہ دیا جارہا ہے اس میں صدر مملکت خود رائے مانگ رہے ہیں، کیا سپریم کورٹ ایک ٹوئیٹ پر فیصلے دے۔

چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل انور منصور سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹوئیٹس میں صدر مملکت اپنے آئینی اختیارات کی بات نہیں کررہے، آپ ایسے صدر کے اٹارنی جنرل بھی رہ چکے ہیں، بہت اخلاق والے صدر ہیں آپ فون بھی کرتے تو آپکو بتا دیتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وضاحت کریں تاخیر پر نتائج کا سامنا کیسے کرنا چاہیے؟ صدر مملکت نے کونسی اور کب تاریخ دی، آپ اپنے دلائل آرٹیکل 224 تک محدود رکھیں، وہ الگ بات ہے کہ تاخیر کا ذمہ دار کون ہے۔ انور منصور بولے؛ ہم ذمہ داروں کے تعین کی بات نہیں کررہے ہم تو انتخابات چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدر بار کے مطابق 3 نومبر کو انتخابات ہونے چاہییں، صدر مملکت نے جب تاریخ دے دی تو پھر خود خلاف ورزی کردی۔ 23 اگست کو صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ نہیں دی صرف خط لکھا تھا،

جسٹس اطہرمن اللہ بولے؛ لگتا ہے انور منصور صاحب آپ نے اپنی درخواست خود نہیں لکھی، آپ انتخابات کے معاملے کو کنفیوز کررہے ہیں، عدالت میں ایسی باتیں نہ کی جائیں جنہیں پھر ثابت نہ کیا جاسکے، چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ یہی ہوتا ہے جب کوئی آئینی ادارہ کام نہ کرے اور دوسرے پر ڈال دے۔

چیف جسٹس کے استفسار پر صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ترمیم کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے، آئین کے مطابق صدر مملکت نے تاریخ دینا ہوتی ہے، اس موقع پر چیف جسٹس بولے؛ آپ پھر بات کو گھما رہے ہیں صدر کے پاس اختیار تھا تو تاریخ کیوں نہیں دی، کوئی تو ذمہ دار ہے کیا آپ صدر مملکت کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں۔

بعد ازاں جب تحریک انصاف اور عمر ایوب خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دینا شروع کیے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ عمر ایوب صاحب کون ہیں؟ کیا یہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کے پوتے نہیں جنہوں نے 1956 کا آئین توڑا اور اسمبلی کو برخاست کیا، اب یہ جمہوریت پسند بن گئے ہیں، کیا یہ درست نہیں، جس پر بیرسٹر علی ظفر بولے یہ تاریخی حقیقت ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کیا وہ عدالت میں ہیں؟ تو بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ وہ کہیں چھپے ہوئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وفاق کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 نومبر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp