سپریم کورٹ نے 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد کا کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ 23 اکتوبر کو سماعت کرے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ میں جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان شامل ہوں گے۔
ملک میں 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے سپریم کورٹ بار اور پی ٹی آئی سمیت دیگر نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست:
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے 16 اگست 2023 کو ملک بھر میں عام انتخابات 90 روز میں منعقد کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کے خلاف دائر اس درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ الیکشن کمیشن کو 90 روز میں عام انتخابات کرانے کی ہدایت دی جائے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کے نگراں وزراء اعلی کی مشترکہ مفادات کونسل میٹنگ میں شرکت کو غیر قانونی قراردیا جائے۔ ’سپریم کورٹ حکم دے کہ الیکشن کمیشن ہر صورت 90 روز کے اندر انتخابات کرائے جائیں۔‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے ایک ہفتہ قبل مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر نئی مردم شماری کے اجراء کی منظوری لینے کا مقصد انتخابات میں تاخیر کرنا ہے۔ ایسوسی ایشن نے نئی مردم شماری کے اجراء کی منظوری کا مشترکہ مفادات کونسل کا نوٹیفکیشن معطل کرنے کی بھی استدعا کی تھی۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق قبل از وقت اسمبلیوں کی تحلیل پر 90 دنوں میں انتخابات کا انعقاد آئین کا بنیادی جز ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات میں تاخیر آئین کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے نگران وزرائے اعلیٰ 90 روز میں الیکشن کروانے کے آئینی تقاضے کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔
’دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صدر مملکت از سر نو مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل ہی نہیں کر سکتے، نگران حکومتوں کا کام آئین و قانون کے مطابق الیکشن کروانا ہے، نگراں وزراء اعلیٰ منتخب وزراء اعلیٰ کی طرح اپنے اختیارات استعمال نہیں کر سکتے بلکہ وہ تو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں شرکت کے اہل ہی نہیں تھے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کی درخواست
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 28 اگست 2023 کو عام انتخابات 90 روز کے اندر کروانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواست دائر کی گئی ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدر مملکت کو ہدایت کی جائے کہ 90 روز میں انتخابات کروانے کا شیڈول جاری کریں۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے صوبائی انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کے لیے متعلقہ گورنرز کو ہدایات جاری کی جائیں، جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق خیبرپختونخوا کے انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا بھی حکم دیا جائے۔
پی ٹی آئی نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے 5 اگست کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹکس کے 5 اگست کے نوٹیفیکیشن کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 17 اگست کو جاری کیے گئے حلقہ بندیوں کے شیڈول کو بھی کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57(1)میں الیکشن کمیشن کے شیڈول جاری کرنے کے اختیار کو کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں وفاقی و صوبائی حکومتوں، الیکشن کمیشن اور مشترکہ مفادات کونسل کو فریق بنایا گیا ہے۔
جماعت اسلامی کی درخواست:
پی ٹی آئی کے بعد جماعت اسلامی نے بھی 29 اگست 2023 کو 90 روز میں انتخابات کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے وکیل کے توسط سے آئینی درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ آئین کے مطابق 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم جاری کرے۔
جماعت اسلامی نے دائر کردہ درخواست میں استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا جائے، متعلقہ اداروں کو ہداہت کی جائے کہ وہ الیکشن کمیشن کی انتخابات سے متعلق معاونت کریں۔ دائر کردہ درخواست کے مطابق یہ بھی استدعا کی گئی کہ نگراں حکومت کو آئین کے مطابق الیکشن میں معاونت کرنے کا حکم دیا جائے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے درخواست میں الیکشن کمیشن، وفاقی حکومت اور صوبائی نگراں حکومتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
صدر علوی نے عام انتخابات کے لیے 6 نومبر کی تاریخ تجویز کردی
صدر مملکت عارف علوی نے 13 ستمبر 2023 کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد صدر کا اختیار ہے کہ وہ 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے لیے تاریخ کا اعلان کرے۔
خط میں کہا گیا تھا کہ عام انتخابات کی تاریخ دینا آئین کے آرٹیکل 58 (5) کے تحت صدر کا اختیار ہے، ’صدر نے 9 اگست کو وزیراعظم کی ایڈوائس پر اسمبلی کو تحلیل کیا۔ آرٹیکل 48(5) کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے عام انتخابات قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کے 89ویں دن یعنی پیر 6 نومبر 2023 کو ہونے چاہییں‘۔
خط کے متن میں تحریر تھا کہ عام انتخابات کی تاریخ دینے کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی خاطر چیف الیکشن کمشنر کو مشاورت کے لیے بلایا تھا تاکہ طریقہ کار طے کیا جا سکے مگر چیف الیکشن کمشنر نے جوابی خط میں کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ وفاقی وزارت قانون و انصاف بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسی رائے کی حامل ہے۔
خط کے متن میں لکھا گیا ہے کہ اگست میں مردم شماری کی اشاعت کے بعد حلقہ بندیوں کا عمل بھی جاری ہے، آئین کے آرٹیکل 51(5) اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 17 کے تحت یہ ایک لازمی شرط ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے آئینی اور قانونی اقدامات یقینی بنائے۔
آئین میں انتخابات کے لیے 90 روز کی مدت درج تو پھر اتنی تکرار کیوں؟ سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال
سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطابندیال نے 13 ستمبر 2023 کو کہا تھا کہ جب آئین میں لکھا ہے انتخابات 90 روز کی مدت میں ہونے ہیں تو پھر اس پر تکرار کیوں ہے۔ سپریم کورٹ بار کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے کہا تھا کہ دعا ہے ارباب اختیار کی جانب سے تمام معاملات آئین کے مطابق طے کیے جائیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز کا آپس میں اختلاف رائے صرف اس حد تک ہے کہ آئینی کیسز براہِ راست عدالت عظمیٰ میں آنے چاہییں یا نہیں، اس کے علاوہ ہماری رائے میں کوئی تضاد نہیں۔ ہمارے ججز کے آزاد ہونے پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔