گزشتہ روز بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی جانب سے وڈھ میں امان و امان کی مخدوش صورتحال، ڈیتھ اسکواڈ اور بی این پی کے رہنماؤں کے خلاف درج ایف آئی آر سمیت دیگر مطالبات کے حق میں وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ لانگ مارچ اتوار کی صبح 7 بجے وڈھ سے روانہ ہوا جبکہ رات 8 بجے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ پہنچا جس میں کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی۔
لانگ مارچ کی قیادت بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کر رہے تھے، جنہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ ان کے قافلے کو 2 گھنٹوں سے کوئٹہ کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ شفیق مینگل کے ڈیتھ اسکواڈ ونگ کی جانب سے قافلہ کو ناکام کرنے میں سڑک بند کر دی گئی ہے جس پر انتظامیہ غائب ہے۔
بعد ازاں بی این پی نے کوئٹہ میں واقع جلسہ گاہ ایوب اسٹیڈیم کے دروازے بند ہونے کا الزام بھی نگران حکومت پر لگایا جس پر ترجمان بلوچستان حکومت نے مؤقف دیا کہا کہ ایوب اسٹیڈیم کے دروازے کھلے ہیں بندش کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ بی این پی کے سربراہ کو کوئی غلط فہمی ہوئی یا انہیں غیر تصدیق شدہ اطلاع دی گئی۔ صوبائی حکومت نے مظاہرین کو مکمل سیکیورٹی اور تحفظ فراہم کیا ہے جبکہ لانگ مارچ کے پورے روٹ پر کسی بھی جگہ کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی گئی۔
اس سیاسی گرما گرمی کے بعد کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں رات گئے بی این پی کا جلسہ ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ وہ ریاست جو لوگوں کو انصاف مہیا نہ کرسکے، وہ ریاست جس کی کتاب میں صرف اور صرف ظلم و زیادتی لکھا ہو وہ کیا انصاف فراہم کرے گی۔ تاریخ سے سبق سیکھو۔
تین 4 دن پہلے انتظامیہ کے لوگ آئے تھے کہ لانگ مارچ نہ کریں سیکیورٹی رسک ہے، مستونگ سے قلات تک بڑا حساس علاقہ ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کا نام لے کر ہمیں مت مارو، قبائلییت کا نام لیے کر نہ مارو۔ مجھے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے بچایا، آئندہ بھی اللہ تعالیٰ ہی بچائے گا۔
اختر مینگل نے کہا کہ وہ مشرف کا مارشل تھا یہ انور کا مارشل لاء ہے۔ میں کوئی شیخ رشید نہیں ہوں کہ کچھ عرصہ کے لیے بند کردو، بند کرنا ہے تو 10 سال کے لیے کرو تاکہ میں بھی وہاں کچھ آرام کر سکوں۔
بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے بیانات پر رد عمل دیتے ہوئے نگران صوبائی وزیر جان اچکزئی نے کہا کہ سردار اختر مینگل کا مخالفین سے زمین کا تنازع ہے۔ حکومت نے وڈھ تنازع کے حل کے لیے باقاعدہ کمیٹی قائم کی جس کا 2 بار اجلاس منعقد ہوا۔ کمیٹی کے اجلاس میں بی این پی کے کسی بھی ممبر نے شرکت نہیں کی۔
جان اچکزئی نے مزید کہا کہ وڈھ تنازع میں کئی افراد قتل ہوئے، لیکن سردار اختر مینگل نے ان کے لواحقین سے تعزیت تک نہیں کی۔ بی این پی کے لانگ مارچ کا کوئی جواز نہیں ہے۔
سردار اختر مینگل کا آئندہ لائحہ عمل
سردار اختر مینگل کا مؤقف ہے کہ ان کو اپنے ہی انتخابی حلقے میں دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ وی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ 5 سال ان کے مخالفین کو پی ایس ڈی پی کی مد میں کروڑوں روپے کے فنڈز دے۔ سردار اختر مینگل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک بیان میں اعلان کیا کہ 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنا دیا جائے گا۔
کوئٹہ لانگ مارچ وڈھ جنگ میں شکست کی خفت کو مٹانے کے علاوہ کچھ نہیں، میر شفیق الرحمان مینگل
جھالاوان عوامی پینل کے سربراہ میر شفیق الرحمان مینگل نے وڈھ میں جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ وڈھ میں جنگ بپا کرنے والوں کو ایسا تگڑا جواب ملا کہ وہ خود ہر فورم پر دُھائی دینے لگے کہ کسی طرح اس جنگ کو بند کروادیا جائے، حکومت کو الزام دینے والے خود حکومت کی منت ترلے کر رہے تھے۔کوئٹہ لانگ مارچ وڈھ جنگ میں شکست کی خفت کو مٹانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس لانگ مارچ کا منصوبہ بھی ماضی کے لانگ مارچ سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ میں اپنے شہداء اور غازیوں پر فخر کرتا ہوں کہ ہم پر جنگ مسلط کرنے والوں کو انہوں نے ایسا کرارا جواب دیا کہ جو انہیں ہمیشہ سبق کے طور پر یاد رہیگا۔
وڈھ کا تنازع کیا ہے؟
وڈھ بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل ہے جو بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کا آبائی حلقہ انتخاب ہے۔ سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سردار اختر مینگل اور میر شفیق مینگل کے حامی بظاہر وڈھ شہر میں اراضی کے تنازع پر ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو گئے تھے لیکن سیاسی اور قبائلی عمائدین کی مداخلت کے باعث نوبت تصادم تک نہیں پہنچی۔
وڈھ میں حالیہ کشیدگی تب شروع ہوئی جب ایک بار پھر سردار اختر مینگل اور شفیق مینگل کے حامی افراد کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی۔ یہ کشیدگی رواں برس 18 جون کو جنگ کی صورت اختیار کر گئی اور فریقین قومی شاہراہ کے اطراف میں موچہ زن ہو گئے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق ابتک اس دوطرفہ فائرنگ کے نتیجے میں 7 افراد جانبحق ہوچکے ہیں تاہم حکومت بلوچستان کے مطابق وڈھ میں فریقین کو دی جانب والی 4 روزہ ڈیڈ لائن کے بعد حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔