فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کالعدم، اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

پیر 23 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے قانون کو کالعدم قرار دے دیا اور اپنے مختصر حکم نامے میں لکھا کہ 9 مئی کے حوالے سے فوج کی تحویل میں 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں بلکہ عام فوجداری عدالتوں میں ہو پائے گا۔

اس سلسلے میں عدالت نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1) ڈی (1) اور 2 (1) ڈی (2) کی دفعات کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

2 (1) ڈی (1) سیکشن ایسے سویلین افراد کے بارے میں ہے جو کسی فوجی اہلکار کو بغاوت یا جاسوسی پر آمادہ کرے اور سیکشن ٹو (1) ڈی (2) سویلین کی جانب سے آرمی تنصیات پر حملوں اور بغاوت سے متعلق ہے۔

اسی طرح سپریم کورٹ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 59(4) کو بھی کالعدم قرار دے دیا جو سویلین افراد کے فوجی تحویل میں دیے جانے کے قانونی طریقہ کار کے بارے میں ہے۔ آج کے اس فیصلے کا مطلب کیا ہے اور مذکورہ فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس حوالے سے ہم نے آئینی و قانونی ماہرین کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں کے حوالے سے فیصلہ قابل تعریف ہے، حسن رضا پاشا

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ قابلِ تعریف ہے۔ ہمارا تو مطالبہ ہی یہ تھا کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، لیکن سیکشن 2 (1) ڈی (1) اور 2 (1) ڈی (2) کو جو مکمل طور پر کالعدم کیا گیا ہے وہاں ایک جلد بازی کی گئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس پر اگر دو سماعتیں اور کر لی جاتیں تو زیادہ بہتر فیصلہ دیا جا سکتا تھا۔

انہوں نے کہاکہ ان 2 دفعات کو کالعدم کر کے عدالت نے سویلین کو بالکل فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار سے نکال تو دیا ہے لیکن بہت سارے سویلین لوگ آرمی کے ساتھ کام کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا ہو گا۔

حسن رضا پاشا نے کہا کہ اس حوالے سے جلد حکومت اپیل دائر کرے گی اور اس میں اسی بات کو بنیاد بنایا جائے گا اور وہ ایک بڑا اور مختلف بینچ سنے گا۔ میرے خیال سے جسٹس یحیٰی آفریدی نے جو اپنا فیصلہ محفوظ کیا ہے وہ بنیادی طور پر اسی نقطے پر ہے اور میرا خیال یہ ہے کہ شاید اس نقطے کو قانون سازی کے ذریعے سے بہتر بنایا جائے۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 59(4) کو کالعدم قراد دیے جانے سے متعلق بات کرتے ہوئے حسن رضا پاشا نے کہا کہ بنیادی طور پر کچھ بھی واضح نہیں ہو رہا تھا کہ ملزمان کو کس قانون کے تحت آرمی کی تحویل میں دیا گیا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ سیشن جج کے حکم پر، کوئی کہہ رہا تھا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کے کہنے پر اور کوئی کہہ رہا تھا کہ کرنل صاحب نے کہا کہ میرے حوالے کیا جائے اور کر دیا گیا۔ تو اس لیے سیکشن 59(4) کو کالعدم قرار دیا جانا درست معلوم ہوتا ہے لیکن اس پر بہتر طریقے سے بات تب ہی کی جا سکتی ہے جب تفصیلی فیصلہ سامنے آئے گا اور وجوہات لکھی جائیں گی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثرات مرتب ہوں گے، بیرسٹر جہانگیر جدون

سابق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس فیصلے کے اثرات ہوں گے۔ مثال کے طور پر ایک سویلین کسی آرمی آفیسر کے ساتھ مل کر جاسوسی یا بغاوت میں ملوث پایا جاتا ہے تو ایسے لوگوں پر کیا قانون لاگو ہو گا۔ آرمی اہلکاروں پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے اور فورس میں ڈسپلن قائم رکھنے کے لیے آرمی اہلکاروں سے بعض بنیادی حقوق اس ایکٹ کے تحت واپس لے لیے جاتے ہیں۔ لیکن آج کے فیصلے سے عدالت نے کہا کہ اس کا اطلاق عام شہریوں پر نہیں ہو گا اور ان کے بنیادی حقوق واپس نہیں لیے جا سکتے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، اکرام چوہدری ایڈووکیٹ

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ ان کی جانب سے دائر کیے گئے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے مقدمے میں یہ واضح کر چکا ہے کہ ملک میں دو انصاف کے نظام نہیں ہو سکتے کہ ایک سویلین اور دوسرا فوجی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل دراصل مارشل لا حکومتوں کی دین تھا اور بنیادی طور پر لوگوں کو دباؤ میں لانے کا ایک طریقہ کار تھا۔ صرف ایک بار ایک دو سال کے لیے فوجی عدالتیں بنانے کا قانون بنا تھا اور اس کے خاتمے کی معیاد طے شدہ تھی۔

اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کے حوالے سے عدالتی کمیشن بنایا جانا چاہیے جس سے طے ہو کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے جن شقوں کو ختم کیا وہ آئین سے متصادم تھیں اور بنیادی حقوق کو متاثر کر رہی تھیں اس لیے کالعدم قرار دے دی گئیں۔

یہ قانون درست تھا، ختم کرنے کے اثرات ہوں گے، راجہ رضوان عباسی

سینیئر فوجداری وکیل راجہ رضوان عباسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2 (1) ڈی (1) اور 2 (1) ڈی (2) ان دونوں شقوں کو سپریم کورٹ کا بینچ ایف بی علی کیس میں درست قرار دے چکا ہے اور اب اگر ان کو ختم کیا جانا تھا تو اس سے بڑا بینچ ہونا چاہیے تھا، ایک 5 رکنی بینچ اس فیصلے کو ختم نہیں کر سکتا۔

راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ ان کے حساب سے یہ قانون درست تھا اور اس کو ختم کیے جانے سے اثرات مرتب ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp