مقتدر خانوادوں کی مظلومیت ہمارے کس کام کی؟

منگل 24 اکتوبر 2023
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لگ بھگ 4 برس بعد میاں نواز شریف نے ’طبی جلاوطنی‘ سے واپسی پر مینارِ پاکستان کے سائے میں جو تقریر کی اس کا نصف حصہ ان پر اور ان کے خاندان پر گزرے مصائب کا بیانیہ تھا۔ والد، والدہ اور اہلیہ کے جنازوں کو کندھا نہ دینے کا غم، ایک ہی جیل میں باپ اور بیٹی قید ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ملاقات نہ ہونے کا دکھ، آج جب وہ اتنے برس بعد گھر جائیں گے تو نا ان کے استقبال کو اہلیہ ہوں گی اور نا ہی ان کا ماتھا چومنے والی ماں، بقول نواز شریف یہ دونوں میری سیاست کی نذر ہو گئیں۔

بھٹو خاندان کا دکھ اس سے بھی بڑا ہے۔ بلاول کے نانا پھانسی چڑھ گئے، والدہ دہشت گردی کا لقمہ بن گئیں۔ باپ طویل عرصے تک جیل میں رہا۔ ایک ماموں پُراسرار حالات میں جاں بحق ہوا اور دوسرے ماموں کو سڑک پر دن دیہاڑے پولیس نے قتل کیا۔ نانی کی آخری عمر میں یادداشت چلی گئی۔

شریف خاندان ہو یا بھٹو خاندان دونوں کے ارکان کسی بھی موقع پر اپنی قربانیوں کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ اور یہ ذکر ہونا بھی چاہیے کیونکہ دونوں خاندان اپنے لاکھوں حامیوں کے لیے ایک مثالیہ ایک رول ماڈل ہیں۔ جب ان کے حامی یہ باتیں سنتے ہیں تو خود پر بیتے مصائب کچھ دیر کے لیے بھول جاتے ہیں اور اپنے غم کو ولولے میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھٹو خاندان کو 4 بار اور شریف خاندان کو 3 بار اقتدار ملا اور اب کہا جا رہا ہے کہ ’شیر چوتھی واری فیر‘۔

مگر ایک ذہنی الجھن سلجھائے نہیں سلجھ رہی۔ کیا اصول اور نظریے کی خاطر ذاتی یا خاندانی قربانیاں عام آدمی کی قربانیوں کی قدر و قیمت بھی اجاگر کرتی ہیں یا پھر سیاسی خانوادے اپنی قربانیوں کا پھل ایک پروڈکٹ یا سرمایہ کاری کی شکل میں اپنا اپنا سیاسی قد کاٹھ مزید بڑھانے کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں؟۔

اگر میں ٹیسٹ کیس کے طور پر صرف اکیسویں صدی تک ہی خود کو محدود رکھوں تو بھٹو، زرداری خاندان کو 2008 تا 2013 اس ملک پر تیسری بار حکومت کرنے اور پہلی بار 5 سالہ آئینی مدت مکمل کرنے کا موقع ملا۔

مسلم لیگ نواز کو تیسری بار 2013 تا 2018 تک 5 برس کی آئینی مدت مکمل کرنے کا موقع ملا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے 5 برس میں کم ازکم 18ویں آئینی ترمیم ضرور اس ملک کو دے دی۔ اور مسلم لیگ نواز نے سابق آمر پرویز مشرف پر آئین کا آرٹیکل 6 لاگو کرنے کی کوشش ضرور کی۔

مگر دونوں جماعتیں اپنے اقتدار کے مجموعی 10 برس کے دوران بھی نائن الیون کے عطا کردہ جبری گمشدگی کے مرض کا معمولی علاج بھی نہیں ڈھونڈھ پائیں۔ ذاتی مصائب کا تلخ تجربہ ہونے کے باوجود جبری گمشدگان کے خاندانوں پر کیا بیتتی ہے۔ اس کا مداوا کرنے میں نا صرف منتخب حکومتیں بلکہ عدلیہ بھی بے بس نظر آئی۔

حالانکہ یہ دونوں جماعتیں چاہتیں تو کم ازکم جبری گمشدگی کے تدارک کے لیے اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی کنونشن مجریہ 2010 پر دستخط ضرور کر سکتی تھیں۔ پھر اس کی چھتری تلے تھوڑی بہت بنیادی قانون سازی بھی کر سکتی تھیں اور اس کی بنیاد پر آنے والی پارلیمنٹ یا حکومت اس قانون کو ماحول کی نزاکت و گنجائش دیکھتے ہوئے مزید بہتر بھی بنا سکتی تھی۔

اگر ایسا ہو جاتا تو شاید اس مسئلے کے تدارک کے لیے قومی اسمبلی نے جو بل 2020 میں منظور کیا وہ سینیٹ سیکرٹیریٹ پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی لاپتا نہ ہوتا۔

اقوامِ متحدہ کے مذکورہ کنونشن پر اب تک 107 ممالک دستخط کر چکے ہیں۔ 57 ممالک کی جانب سے باقاعدہ توثیق (نویٹیفکیشن) کے بعد اس کی 45 شقوں پر کسی حد تک عمل بھی ہو رہا ہے۔ جنوبی ایشیا سے مالدیپ، سری لنکا اور بھارت اس پر دستخط کر چکے ہیں مگر باقاعدہ توثیق اب تک صرف سری لنکا نے کی ہے۔ 107 دستخط کنندگان میں مسلمان ممالک کی تعداد صرف 12 ہے۔ جبکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان میں سے صرف فرانس نے اس کنونشن کی توثیق کی ہے۔

اس کنونشن کے آرٹیکل ایک، 2 ،3 اور 4 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی انسان کو کسی بھی عذر بشمول حالتِ جنگ، داخلی بدامنی یا ہنگامی حالات کو جواز بنا کر جبری اغوا نہیں کیا جا سکتا۔

جبری اغوا کا مطلب کسی بھی ادارے یا اس سے نتھی گروہ یا تنظیم یا فرد کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو قانونی دائرے سے باہر رکھ کر گرفتار، نظربند یا غائب کرنا یا اس کی نقل و حرکت کی آزادی کو محدود یا ختم کرنا ہے۔ ایسا کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا کنونشن کو تسلیم کرنے والی ریاست کی لازمی ذمہ داری ہے۔ اور اس کے لیے ملکی سطح پر نافذ قوانین میں موثر اور تسلی بخش ترامیم یا نئی قانون سازی کے لیے یہ ریاستیں پابند ہیں۔

کیا اپنے اپنے مصائب بیان کر کے ہمدردیاں اور ووٹ سمیٹنے کے خواہاں خانوادے اور جماعتیں اگلی بار اقتدار ملنے پر بنیادی انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی کنونشنز کی توثیق اور ملکی جیلوں کی حالت بین الاقوامی معیار تک لانے کی کوشش کریں گی؟ کیا وہ خود کو اس بابت پابند بنانے کے لیے مذکورہ دونوں نکات کو اپنے اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنائیں گی؟۔

اگر اس سیدھے سے سوال کا جواب بھی اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، فلاں چناں کے کفن میں لپٹا ہوا ہے تو کم ازکم مجھ جیسوں کو مقتتدر اشرافیہ کے ’مظلوم خاندانوں‘ سے قطعاً ہمدردی نہیں۔ ان سے زیادہ آنسو تو مگر مچھ بھی بہا لیتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp