کیا نواز شریف نے ڈیل کی ہے؟

منگل 24 اکتوبر 2023
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کیا آپ جانتے ہیں 1999 کے مارشل لا کے بعد پاکستان میں 4 مرتبہ انتخابات 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں منعقد کیے گئے۔ اُس وقت ان میں سے 3 انتخابات میں نواز شریف کو الیکشن ہی نہیں لڑنے دیا گیا۔ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے یہ نہیں کہا گیا کہ نواز شریف کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی گئی۔ اور ان کے آواز نہ اٹھانے کی سمجھ آتی ہے کیونکہ ہر سیاسی جماعت اپنے مخالف کو گرا کریا کمزور کرکے ہی میدان سیاست میں آگے بڑھنا چاہتی ہے۔

نواز شریف تقریباً 4 سال بعد وطن واپس آئے ہیں۔ ان کی واپسی پر ان کی جماعت نے جو سیاسی پاور شو لاہور میں منعقد کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے مخالفین بھی اسے ایک بڑا جلسہ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اس بڑے جلسے کو وہ مسلم لیگ ن کی طرف سے خاص طور پر نواز شریف کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو یا پاکستان تحریک انصاف ان کے رہنماؤں نے میڈیا پر برملا نواز شریف کی واپسی کو ڈیل کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔

سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ تاثر کہ نواز شریف ڈیل کے تحت واپس آئے اس لیے ان کو ہر طرح کی سہولت کاری دی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ نواز شریف نے اپنی واپسی کے حوالے سے کوئی ڈیل کی ہو۔ لیکن بہتر ہوتا کہ ایسا کہنے والے ان الزامات کے ثبوت بھی ساتھ پیش کرتے۔ 2017 میں جب پاناما سے اقاما نکال کر نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو اُس وقت ایک اکثریت کا خیال تھا کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ بڑے بڑے قانونی ماہرین تک نے یہی کہا کہ یہ فیصلہ اپیل میں پراسیکیوشن ڈیفنڈ نہیں کرپائے گی۔ لیکن اس کے باوجود کسی نے اُس وقت آواز نہیں اٹھائی۔ جب عدالت کا یہ فیصلہ آیا تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ ایک ڈیل کے تحت نوازشریف کو تاحیات نااہل کیا گیا ہے کیونکہ اس وقت مقتدر حلقوں نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ عمران خان کو اقتدار میں لانا ہے اور 2018 تبدیلی کا سال ہوگا۔ آج وہی سب ڈیل کا شور مچا رہے ہیں جو 2017 میں سیاسی انجینئرنگ پر خاموش تھے۔ کیا اُس وقت غلطی کرنا ڈیل تھی یا اب غلطی کو درست کرنا ڈیل ہے؟۔ اس ڈبل سٹینڈرڈ سے جب تک ہم باہر نہیں نکلیں گے تب تک پاکستان میں کوئی سیاسی یا اقتصادی استحکام ممکن نہیں۔

پاکستان کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ طاقتور حلقے چاہتے ہیں کہ Divide and rule کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے سیاستدانوں کو کبھی متحد نہ ہونے دیا جائے۔ جب 2017 میں ن لیگ زیرعتاب تھی تو پی ٹی آئی اسے اپنی جمہوری فتح کا نام دے کر شادیانے بجاتی تھی اور اب پی ٹی آئی زیرعتاب ہے تو ن لیگ سرشار ہے۔ ان کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ان کو تقسیم کر کے اصل حکمرانی ان پر غیر جمہوری حلقے کررہے ہیں۔ پاکستان میں اگر واقعی حقیقی جمہوریت لانی ہے تو جیسے نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے ویسے ہی تمام سیاسی رہنما عہد کریں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے۔ لیکن اس کے لیے ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا چارٹر جس کی پاسداری ہر سیاسی جماعت پر واجب ہو ورنہ یہ یونہی ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوکرنا صرف ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ اس ملک اور عوام کو بھی اسی طرح نقصان پہنچاتے رہیں گے۔

مقتدر حلقوں کو بھی یہ سوچنا ہو گا کہ سیاست میں مداخلت اورپسند و نا پسند سے پاکستان کا بہت نقصان ہوچکا ہے۔ اب ہر ادارے کو اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنے کی آزادی دی جائے۔ سیاسی مداخلت سے اگر ملک بہتر ہوتا اور ترقی کر رہا ہوتا تو یقین مانیں آج نواز شریف کو کوئی یاد بھی نہیں کرتا۔ اگران کی مداخلت سے لائی گئی تبدیلی نے مہنگائی سنگل ڈیجٹ پرلائی ہوتی، ڈالر کا ریٹ 100 روپے پر ہوتا، لوگوں کو روزگار مل رہا ہوتا، معیشت کا پہیہ چل رہا ہوتا تو نواز شریف کو یہ قوم بھول بھی چکی ہوتی۔

کچھ لوگوں نے نواز شریف کے خطاب پر یہ سوالات بھی اٹھائے کہ انہوں نے جلد الیکشن کا مطالبہ نہیں کیا اور دوسرا انہوں نے ملکی معیشت کو ٹریک پر لانے کے لیے بھی کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔ میرے خیال میں یہ ان کا واپسی کے بعد پہلا خطاب ہے۔ ممکن ہے وہ بعد میں کوئی تفصیلی روڈ میپ دیں۔ اور ویسے بھی ابھی تو ان کا اپنا مستقبل بھی واضح نہیں کہ آج 24 اکتوبر کو انہیں عدالت سے ضمانت ملتی بھی ہے یا دوبارہ جیل جانا پڑے گا۔

بہر حال انہوں نے اپنے خطاب میں مختصر سا ذکرمعاشی ریفارمز کے حوالے سے کیا ہے جس میں انہوں نے زراعت اور آئی ٹی کے شعبے میں ترقی کا عندیہ دیا۔ میں سمجھتا ہوں اگلی حکومت چاہے جس جماعت کی بھی ہوان کو چاہیے کہ زراعت کے شعبے پر توجہ دیں۔ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری زرعی شعبے پر کی جانی چاہیے کیونکہ یہ وہ سرمایہ کاری ہے جس کا ریٹرن آپ کو 6 ماہ سے ایک سال میں مل جاتا ہے۔ جبکہ باقی منصوبوں میں 4 سے 5 سال تو ویسے ہی منصوبہ مکمل ہونے میں لگتے ہیں اور اس کے بعد بھی ریٹرن ملنے میں کچھ عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر شعبوں کو نظر انداز کیا جائے۔ بالکل نہیں لیکن زراعت پر خصوصی توجہ سے کم وقت میں جلدی ریٹرن ملنے کے چانسز زیادہ ہیں۔ اس سے آپ کی رورل اکانومی مضبوط ہوگی جو کہ ملک کی تقریباً 60 سے 70 فیصد ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp