یکم نومبر کے بعد غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن ہوگا، جان اچکزئی

منگل 24 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان کے نگراں وزیراطلاعات جان اچکزئی نے کہا ہے کہ یکم نومبر کے بعد صوبے میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو گرفتار کرکے اسمبلی پوائنٹس پر لے جایا جائے گا اور بعد ازاں افغان سرحد تک باعزت طریقے سے چھوڑ دیا جائے گا۔

وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے صوبائی نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکین وطن کی واپسی کے حوالے سے یکم نومبر کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی، اب تک غیر قانونی طور پر مقیم 10 ہزار افغان خاندان چمن کے راستے افغانستان جا چکے ہیں، سرحد سے منسلک علاقوں میں اسمبلی پوائنٹس بنائے گئے ہیں جہاں سے تارکین وطن کو افغان سرحد تک باحفاظت پہنچایا جاتا ہے۔

انخلا کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟

جان اچکزئی نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے افغان تارکین وطن کا مکمل ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے جنہیں افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔ انخلا کو مزید مؤثر بنانے کے لیے بین الصوبائی سرحدوں پر بھی چیک پوائنٹس قائم کی گئی ہیں، ان چیک پوائنٹس پر نادرا سمیت دیگر اداروں کا عملہ موجود ہوگا جو تارکین وطن کی 10 انگلیوں کے فنگر پرنٹس لے گا، اس عمل سے سرحد پار کرنے والے تمام تارکین وطن کے اندراج کے ساتھ یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ یہ افراد واپس پاکستان نہ آسکیں۔

کیا افغان تارکین وطن کے انخلا سے دہشتگردی میں کمی واقع ہوگی؟

جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے رواں برس ملک میں 20 خودکش دھماکے ہوئے جن میں سے 14 حملوں میں افغان باشندے ملوث تھے، دوسری جانب افغان سرحد سے بھی پاکستان میں متعدد بار حملے کیے گئے ہیں جن میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کب تک اپنے جوانوں کی لاشیں اٹھائیں گے، ایسی صورت میں جب ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہمارے ملک میں کون رہ رہا ہے، یہ فیصلہ کرنا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ان کے وطن واپس بھیجا جائے ایک انتہائی درست فیصلہ ہے۔

چمن اور اسپن بولدک کے رہائشیوں کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے؟

جان اچکزئی نے کہا کہ اگر کسی شخص کے پاس پاسپورٹ، ویزا یا قانونی دستاویزات موجود نہیں تو اسے واپس اپنے وطن ہر صورت جانا ہوگا، چمن میں پاسپورٹ آفس کی سہولت نہیں تھی مگر اب وہاں پاسپورٹ آفس قائم کیا جارہا ہے، نادرا آفس میں بھی عملے کی کمی تھی جسے پورا کیا جا رہا ہے اور 24 گھنٹے کے لیے فعال بھی بنایا جارہا ہے۔

صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ چمن میں جدید ڈیجیٹل نظام لایا جارہا ہے جس سے پاسپورٹ کی اسکیننگ کی جاسکے گی، اس کے علاوہ ای تذکرے کی سہولت فراہم کی جائے گی تاکہ جو بھی یہاں واپس آئے اس کا مکمل ریکارڈ ہمارے پاس موجود رہے اور بعد ازاں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغان عوام باقاعدہ طور پر پاسپورٹ اور ویزا کے ذریعے پاکستان آئیں۔

افغان حکومت نے بھی پاکستانی باشندوں کی آمد پر پابندی لگا دی ہے

جان اچکزئی نے کہا کہ افغان حکومت نے بھی پاکستانی باشندوں کی آمد پر پابندی لگا دی ہے تاہم اس حوالے سے افغان حکام سے ہماری وزارت خارجہ رابطے میں ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خودمختاری اور ملک کا جو حق ہے اس سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ہمیں کسی بھی ملک سے اجازت کی ضرورت نہیں کہ ہماری داخلہ حکمت عملی کیا ہونی چاہیے، ہم نے 40 سال تک افغان تارکین وطن کی بے لوث خدمت کی ہے جسے دنیا نے کبھی نہیں سراہا لیکن اب ان تمام افراد کو وطن واپس بھیجا جائے گا جن کے پاس دستاویزات موجود نہیں۔

 افغان مہاجرین کے حوالے سے کیا حکمت عملی ترتیب دی جائے گی؟

جان اچکزئی نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم نومبر کے بعد وہ افغان مہاجرین جن کے پاس پی او آر کارڈز یا افغان سیٹیزن کارڈز موجود ہیں مگر ان دستاویزات کی معیاد ختم ہوگئی ہے تو اس صورت میں ان افغان باشندوں کو بھی واپس ان کے وطن بھیجا جائے گا ۔

اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟

جان اچکزئی نے بتایا کہ غیر قانونی طور پر ملک میں لائے جانے والے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اس کی سپلائی دوسرے صوبوں کے لیے مکمل طور پر روک دی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت کے لیے یہ باعث تشویش تھا کہ سمندر کے راستے بڑے پیمانے پر ایرانی پیٹرولیم مصنوعات اسمگل کی جارہی تھیں جس کا حجم 80 فیصد تھا، حکومتی اقدامات کے ذریعے اس میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے اور اسمگلنگ صرف سرحدی علاقوں تک محدود رہ گئی ہے۔

ایران سے تجارت کو مؤثر بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

جان اچکزئی نے کہا کہ ایران کے ساتھ رواں سال پاکستان کی دوطرفہ تجارت 2.5 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے جو خوش آئند بات ہے، تجارت کو مزید فعال بنانے کے لیے ایرانی سرحد سے منسلک علاقوں میں 6 مارکیٹیں بنائی جارہی ہیں، 2 مارکیٹیں مکمل طور پر فعال ہوچکی ہیں، سرحد کی دوسری جانب سے کاروبار کو مؤثر بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے دو طرفہ تجارت کو فروغ ملے گا۔ جان اچکزئی نے کہا کہ ہم ایران سے 300 میگا واٹ بجلی خرید رہے ہیں اور ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں کو فراہم کر رہے ہیں۔

پاک ایران گیس پائپ لائن پر پاکستان کو جرمانہ کا امکان ہے؟

ایک سوال کے جواب میں جان اچکزئی نے بتایا کہ حالیہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی، پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے سے متعلق کسی قسم کا کوئی جرمانہ ادا کرنے کا معاملہ وجود ہی نہیں رکھتا تاہم ایران پر مختلف پابندیاں عائد ہیں جس کی ہم خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت مختلف بین الاقوامی معاہدوں کا حصہ ہیں جن کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی تاہم دوطرفہ تجارت پر غور کیا جارہا کہ اس حجم کو 2.5 ارب ڈالر سے بڑھا کر 5 ارب ڈالر تک کیا جائے۔

وڈھ کی صورتحال اور اختر مینگل کے بیانات

جان اچکزئی نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ وڈھ کی صورتحال پہلے سے بہت بہتر ہے، زندگی معمول پر آنا شروع ہوگئی ہے، تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بھی کھلنا شروع ہو گئے ہیں جبکہ نقل مکانی کرنے والے لوگ بھی گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فریقین نے حکومت کی درخواست پر مورچے چھوڑ دیے ہیں۔ اختر مینگل کے بیانات سے متعلق انہوں نے کہا کہ سردار اختر مینگل کو جمہوری حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے بیانات دیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp